Javed Nadeem

جاوید ندیم

جاوید ندیم کی نظم

    درختوں نے انسانوں کو

    درختوں نے انسانوں کو سایہ پھول پھل اور آگ دی بے غرض افسوس انسانوں نے درختوں سے بے غرضی نہ سیکھی سانپ سے خود غرضی سیکھ لی جو خود اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    مرد درخت ہے

    مرد درخت ہے عورت بیل بیل کے بقا کے لئے درخت کا وجود اتنا ہی ناگزیر ہے جتنے روشنی اور آب جو بیل درخت کے سہارے سے محروم رہتی ہے زمین پر پھیل کر چرندوں کی خوراک بن جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    اندیشہ کھو جانے کا

    اندیشہ کھو جانے کا امید کچھ پانے کی حزن و مسرت ہمارے اپنے اختیار کے اندیشہ دیمک ہے جو مسرت کے درختوں کی جڑوں کو چاٹتی رہتی ہے تم بے اندیشہ کیوں نہیں ہو جاتے کہ پیدائش سے موت تک زندگی کے لمحوں کو تم ان کے مآل متعینہ سے ہٹ کر نہیں جی سکتے

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3