Javed Nadeem

جاوید ندیم

جاوید ندیم کی غزل

    سمجھ سکا نہ بات میں کیوں مستقل وبال میں رہا

    سمجھ سکا نہ بات میں کیوں مستقل وبال میں رہا جواب میں نہ آ سکا ہمیشہ ہی سوال میں رہا مٹے گا کیسے فاصلہ وہ اس کے میرے بیچ کا بھلا جنوب میں رہا جو میں تو جا کے وہ شمال میں رہا بھلا دیا گیا ہوں میں کہ جیسے خواب خام تھا کوئی وہ نقش ذہن و دل بنا رواں دواں مثال میں رہا قدم قدم بچھے تھے ...

    مزید پڑھیے

    کراں کراں نظر میں میری ہر طرف سحاب تھا

    کراں کراں نظر میں میری ہر طرف سحاب تھا زمیں رہی یہ تشنہ لب کہیں مگر نہ آب تھا بدل چکے ہیں سب مرے دل و نظر کے زاویے نظر پڑی تھی اس کی اک عجیب انقلاب تھا کہ نقش دل پہ ہو گئی ہے قربتوں کی داستاں مہک رہی ہے یاسمیں کھلا ہوا گلاب تھا شدید ابر و باد تھی وہ ذہن و دل کے درمیاں بدن زمین غرق ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس کے آسماں کی حدوں میں چھپا ہوں میں

    یہ کس کے آسماں کی حدوں میں چھپا ہوں میں اپنی زمیں سے اٹھ کے کہاں آ گیا ہوں میں بادل میں چھپ گیا ہے جو سورج تو ہی تو تھا جو جل رہا ہے گھر میں وہ روشن دیا ہوں میں جائے گا تو جہاں بھی رہوں گا میں تیرے ساتھ تو ابر بے نیاز تو بہتی ہوا ہوں میں رہ کر بھی ہر مقام پہ دکھتا نہیں ہے کیوں کب ...

    مزید پڑھیے

    دعا تاثیر سے عاری وظائف رائیگاں یعنی

    دعا تاثیر سے عاری وظائف رائیگاں یعنی عمل رد بلا کے ہو گئے سارے دھواں یعنی حقیقت کیا ہے اس کی کون جانے کون بتلائے رہا ہے زندگی کا ہم سفر پیہم گماں یعنی بدلتے جا رہے ہیں زاویے سورج کی نظروں کے زمیں ناراض لگتی ہے خفا ہے آسماں یعنی جو دیکھو گے تو لگتا ہے سراب دشت بھی دریا جو سوچو ...

    مزید پڑھیے

    زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہوگا

    زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہوگا ہجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہوگا حوصلہ داد کے قابل ہے یقیناً اس کا اس کو معلوم تھا دریا میں بھنور بھی ہوگا کون سنتا ہے یہاں پست صدائی اتنی تم اگر چیخ کے بولو تو اثر بھی ہوگا کچھ نہ کچھ رخت سفر پاس بچا کر رکھنا اک سفر اور پس ختم سفر بھی ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا

    کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا بچپن کو جو ملا تھا وہ لمحہ کدھر گیا معدوم سب ہوئیں وہ تجسس کی بجلیاں حیرت میں ڈال دے وہ تماشا کدھر گیا پھر یوں ہوا کہ لوگ مشینوں میں ڈھل گئے وہ دوست لب پہ لے کے دلاسہ کدھر گیا کیا دشت جاں کی سوختہ حالی کہیں اسے چاہت میں چاند چھونے کا جذبہ کدھر ...

    مزید پڑھیے

    اس کے اپنے درمیاں استادہ اک دیوار میں

    اس کے اپنے درمیاں استادہ اک دیوار میں ایک دشت شادمانی اس میں اک آزار میں میں نہیں تھا تو ہی تھا عالم میں لیکن تیرے بعد اے خدائے عز و جل تیرا ہوا اظہار میں شمع سے ہے نور جیسا تیرا میرا انسلاک ورنہ تو بہتی ہوا ہے پھول کی مہکار میں بخت کی سازش کہوں یا پھر مشیت غیب کی تیر زن کوئی ...

    مزید پڑھیے