Jameel Azimabadi

جمیل عظیم آبادی

جمیل عظیم آبادی کی نظم

    آدمی

    توصیف بے کنار کا حق دار آدمی دنیائے شش جہات کا سردار آدمی سچ پوچھئے اگر تو ہے دونوں جہان میں تخلیق ذوالجلال کا شہکار آدمی خونخوار آدمی کہیں غم خوار آدمی دیں دار آدمی کہ گناہ گار آدمی آدم کے دونوں بیٹوں کی صورت جہان میں ہے آدمی سے برسر پیکار آدمی نادار آدمی کوئی زردار ...

    مزید پڑھیے

    چشم تر

    گھٹا چھائی ہے ساون کی جھڑی ہے دل مغموم کی کھیتی ہری ہے چھلک اٹھا ہے پیمانہ نظر کا بخار دل کی آشفتہ سری ہے رخ مہتاب پر تاروں کے ہالے یہ تارے ہیں کہ موتی کی لڑی ہے اجالے کے لئے شمع فروزاں اندھیرے میں سر مژگاں دھری ہے گل نرگس پہ ہیں شبنم کے قطرے کہ سیپی ہے جو موتی سے بھری ہے امنڈ آیا ...

    مزید پڑھیے

    سہارے

    جھکی جھکی سی نظریں کیوں ہیں اڑی اڑی سی رنگت کیوں ہے چپ چپ کیوں ہیں خوف کے مارے گم سم کا کیوں روپ ہیں دھارے یہ گھر تو ہم سب کا گھر ہے کھلا ہوا جس گھر کا در ہے شاہوں کا دربار نہیں ہے پیروں کی درگاہ نہیں ہے مانگیں ہم بے روک جو چاہیں سب پر یہ دربار کھلا ہے گورے کالے ایک ہیں سارے راجا ...

    مزید پڑھیے

    وعدہ

    وہ وعدہ آپ کا وعدہ نہ اب تک ہو سکا پورا زمیں بدلی زماں بدلا مگر وہ وعدۂ فردا ابھی تک اک معمہ ہے اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ رنگ خسروی بدلا جہان خود فراموشی کے بادل چھٹ گئے سارے شفق پھوٹی کرن پھوٹی دھنک ابھری مگر سورج جو نکلا صبح دم تو خود اپنی تیرہ بختی پر پشیماں اور مگر وہ وعدۂ فردا ابھی ...

    مزید پڑھیے

    چراغ محبت

    سیاہی کدورت کی دل سے نکالو نظر کو محبت کے سانچے میں ڈھالو وطن کے تعین سے بالا ہے مومن زمانے کا نظم گلستاں سنبھالو نگار چمن کے تشخص کی خاطر اخوت صداقت کو شیوہ بنا لو محبت کا بھوکا ہے سارا زمانہ زمانے کو بڑھ کر گلے سے لگا لو کسی کا سہارا سر راہ بن کر اگر ہو سکے تو یہ نیکی کما لو نظر ...

    مزید پڑھیے