چشم تر
گھٹا چھائی ہے ساون کی جھڑی ہے
دل مغموم کی کھیتی ہری ہے
چھلک اٹھا ہے پیمانہ نظر کا
بخار دل کی آشفتہ سری ہے
رخ مہتاب پر تاروں کے ہالے
یہ تارے ہیں کہ موتی کی لڑی ہے
اجالے کے لئے شمع فروزاں
اندھیرے میں سر مژگاں دھری ہے
گل نرگس پہ ہیں شبنم کے قطرے
کہ سیپی ہے جو موتی سے بھری ہے
امنڈ آیا ہے دریا جذب دل کا
بھنور میں صبر کی کشتی پڑی ہے
جمیلؔ اشعار میں گوہر فشانی
یہ چشم تر کی سب جادو گری ہے