وعدہ

وہ وعدہ آپ کا
وعدہ
نہ اب تک ہو سکا پورا
زمیں بدلی زماں بدلا
مگر وہ وعدۂ فردا
ابھی تک اک معمہ ہے
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ
رنگ خسروی بدلا
جہان خود فراموشی
کے بادل چھٹ گئے سارے
شفق پھوٹی کرن پھوٹی دھنک ابھری
مگر سورج جو نکلا صبح دم تو
خود اپنی تیرہ بختی پر
پشیماں اور
مگر وہ وعدۂ فردا
ابھی تک اک معمہ ہے
خبر ہو آپ کو شاید کہ
ظلمت کے شکنجے میں
صداقت
صبح کی دہلیز پر
گھٹ گھٹ کے
مرتی ہے سحر خواب پریشاں ہے
وہ وعدہ آپ کا
وعدہ
نہ جانے کب
حدیث دل بنے گا اور
میزان صداقت میں
تلے گا روبرو سب کے