Jameel Ahmad Jameel

جمیل احمد جمیل

جمیل احمد جمیل کی غزل

    ہرجائی سی عورت ٹھہری

    ہرجائی سی عورت ٹھہری کس کی جیب میں دولت ٹھہری اپنی نیکی تہمت ٹھہری مولا تیری قدرت ٹھہری سیپ کو موتی آنکھ کو آنسو اپنی اپنی قسمت ٹھہری ماں سا قد آور کون ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ٹھہری کچھ تو کہو بازار خرد میں مجنوں کی کیا قیمت ٹھہری ہوش کی باتیں سن کر ہنسنا دیوانوں کی عادت ...

    مزید پڑھیے

    روئیں گے چشم تر نہ دیکھیں گے

    روئیں گے چشم تر نہ دیکھیں گے خواب وہ عمر بھر نہ دیکھیں گے فتح کا خواب دیکھنے والے اپنے شانوں پہ سر نہ دیکھیں گے ہم سوالی نکل پڑے گھر سے کوئی دروازہ در نہ دیکھیں گے دھوپ کا سائباں سروں پر ہے راہ میں ہم شجر نہ دیکھیں گے چاہ کر بھی تجھے نہ چاہیں گے دیکھ کر بھی مگر نہ دیکھیں ...

    مزید پڑھیے

    گھٹن بڑھتی ہے تو جینے کی خواہش اور ہوتی ہے

    گھٹن بڑھتی ہے تو جینے کی خواہش اور ہوتی ہے ہوائیں بند ہو جائیں تو بارش اور ہوتی ہے کہاں وہ قہقہے اس کے کہاں اشکوں کی طغیانی تماشا اور ہوتا ہے نمائش اور ہوتی ہے بہت دیکھا ہے ہم نے اور ہمارا تجربہ بھی ہے سنبھل کر راستہ چلنے سے لغزش اور ہوتی ہے میں اپنا دل جھکاتا ہوں تم اپنا سر ...

    مزید پڑھیے

    کیسی دل پہ یہ ہو گئیں گھاتیں صبح سے پہلے شام کے بعد

    کیسی دل پہ یہ ہو گئیں گھاتیں صبح سے پہلے شام کے بعد کون کرے اب راز کی باتیں صبح سے پہلے شام کے بعد ذہن پریشاں کے آنگن میں کیا کیا پھول کھلاتے ہیں خواب کے منظر ہجر کی راتیں صبح سے پہلے شام کے بعد آج بھی یاد کے دشت کا دامن کیوں گیلا کر جاتی ہیں آنکھ سے اشکوں کی برساتیں صبح سے پہلے ...

    مزید پڑھیے

    آنسو آہیں رنج و الم ہیں اور کیا ہے جاگیر مری

    آنسو آہیں رنج و الم ہیں اور کیا ہے جاگیر مری ہنسنا کیا ہے میں کیا جانوں رونا ہے تقدیر مری تم کو میرا چہرہ ملتا جلتے بجھتے لفظوں میں یاد تمہیں بھی سب آ جاتا پڑھ لیتے تحریر مری کس کو خبر کب نیم شبی سے سورج کوئی اگ آئے تم نے چھپا کر رکھ تو لی ہے تکیے میں تصویر مری اب مانوس قید قفس ...

    مزید پڑھیے

    جلا کیوں شمع پر پروانہ آخر

    جلا کیوں شمع پر پروانہ آخر بتائے کیا کوئی دیوانہ آخر حرم کو کیسے جاؤں شیخ صاحب پڑے گا راہ میں مے خانہ آخر کسے ادراک تھا ہوش و خرد کا جنوں تک رہ گیا دیوانہ آخر بڑی آتش مزہ تھی تیز آندھی سلامت رہ گیا خس خانہ آخر جمیلؔ آذر پرستی کا جنوں تھا تمہیں راس آ گیا بت خانہ آخر

    مزید پڑھیے

    ہمارے دل سے وفا کا یقین چھوٹ گیا

    ہمارے دل سے وفا کا یقین چھوٹ گیا مکاں کی قید سے آخر مکین چھوٹ گیا میں اپنے شعر اسی کو سنانے آیا تھا جو ایک شخص پس سامعین چھوٹ گیا ثبوت قتل مٹا کر وہ مطمئن تھا بہت لہو کا داغ سر آستین چھوٹ گیا اسی سے ہے شجر سایہ دار کی امید وہ ایک دانہ جو زیر زمین چھوٹ گیا تمہارے بعد مرے دل کی ...

    مزید پڑھیے

    رات میں آفتاب نا ممکن

    رات میں آفتاب نا ممکن یعنی تعبیر خواب نا ممکن پیار کی بستیاں بسا کر خود دل ہو خانہ خراب نا ممکن رنج و غم زندگی کی سچائی زندگی اک سراب نا ممکن مجھ سے آئینہ کل یہ کہتا تھا تم اور عالی جناب نا ممکن یہ الگ بات تھوڑا تلخ سہی ورنہ سچ کا جواب نا ممکن ہو قلم زاد آئنے کی طرح کوئی ایسی ...

    مزید پڑھیے