روئیں گے چشم تر نہ دیکھیں گے
روئیں گے چشم تر نہ دیکھیں گے
خواب وہ عمر بھر نہ دیکھیں گے
فتح کا خواب دیکھنے والے
اپنے شانوں پہ سر نہ دیکھیں گے
ہم سوالی نکل پڑے گھر سے
کوئی دروازہ در نہ دیکھیں گے
دھوپ کا سائباں سروں پر ہے
راہ میں ہم شجر نہ دیکھیں گے
چاہ کر بھی تجھے نہ چاہیں گے
دیکھ کر بھی مگر نہ دیکھیں گے
پستیوں سے بلندیاں کم ہیں
ہم یہ زیر و زبر بھی دیکھیں گے
شوق دیدار ہے جمیلؔ احمد
ہم ترے بام و در نہ دیکھیں گے