ہرجائی سی عورت ٹھہری
ہرجائی سی عورت ٹھہری
کس کی جیب میں دولت ٹھہری
اپنی نیکی تہمت ٹھہری
مولا تیری قدرت ٹھہری
سیپ کو موتی آنکھ کو آنسو
اپنی اپنی قسمت ٹھہری
ماں سا قد آور کون ہے جس کے
پاؤں کے نیچے جنت ٹھہری
کچھ تو کہو بازار خرد میں
مجنوں کی کیا قیمت ٹھہری
ہوش کی باتیں سن کر ہنسنا
دیوانوں کی عادت ٹھہری
دل کے آئینہ خانے میں
اک پتھر کی مورت ٹھہری
صحرا صحرا ہوش کی باتیں
شہروں شہروں وحشت ٹھہری
تیغ و گلو کی جنگ میں اکثر
جان سے وزنی عزت ٹھہری
گھر بیٹھے لوگوں سے نہ پوچھو
محنت کی کیا اجرت ٹھہری
بھوک پسینہ پیاس کی شدت
مزدوروں کی اجرت ٹھہری
آج جمیلؔ اس شہر سخن میں
بدنامی بھی شہرت ٹھہری