جگدیش پرکاش کی غزل

    ترا خیال مجھے اس طرح پکارتا ہے

    ترا خیال مجھے اس طرح پکارتا ہے کہ مندروں میں کوئی آرتی اتارتا ہے ہلوریں لیتی ہے کچھ اس طرح تری یادیں ندی میں جیسے کوئی کشتیاں اتارتا ہے خموشیوں کے بچھونے پہ شب کے پچھلے پہر ترا خیال نئی آرزو ابھارتا ہے تری وفاؤں کے موسم بدلتے رہتے ہیں مری وفا کا چمن بس تجھے نہارتا ہے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی ہونا تھا وہ ہوا اچھا

    جو بھی ہونا تھا وہ ہوا اچھا تو ہے اچھا ترا خدا اچھا میں سرابوں میں کھو گیا تھا کہیں نہ سفر تھا نہ فاصلہ اچھا شہر تیرا تجھے مبارک ہو مجھ کو جنگل کا راستہ اچھا کیا مزے کی کتاب ہے یہ دل جس نے بھی پڑھ لیا لگا اچھا نہ سہی وصل ذکر وصل تو تھا کوئی لمحہ تو مل گیا اچھا فیس بک پر کسی کا ...

    مزید پڑھیے

    بصارت کھو گئی ہے روشنی میں

    بصارت کھو گئی ہے روشنی میں مزہ آنے لگا ہے تیرگی میں سرابوں سے سرابوں کے سفر تک تڑپ بڑھتی گئی ہے تشنگی میں یہ ڈیرا جوگیوں کا ہے یہیں پر ملے گا کھو دیا جو زندگی میں مخاطب تم سے ہوں میں کچھ تو بولو کٹے گی رات کیا بے چارگی میں دعا کے بعد پتھر بھی ملیں گے یہی تو لطف ہے دیوانگی ...

    مزید پڑھیے

    مری زندگی ہے سراب سی کبھی موجزن کبھی تشنہ دم

    مری زندگی ہے سراب سی کبھی موجزن کبھی تشنہ دم کبھی انتظار کی دھوپ سی کبھی قربتوں کا کوئی بھرم تری چاہتوں کا یہ سلسلہ کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا کبھی پوس ماگھ کی دھوپ سا کبھی نغمہ خواں کبھی چشم نم مجھے چھو کے وقت گزر گیا ذرا رک کے عمر نکل گئی جو رہا تو پاس یہی رہا کبھی اپنا دکھ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    اک پرانی شراب جیسا عشق

    اک پرانی شراب جیسا عشق مجھ سے خانہ خراب جیسا عشق میرؔ کی ایک غزل سا دل افروز اک مقدس کتاب جیسا عشق ہے گنہ بھی یہی عبادت بھی عاقبت کے حساب جیسا عشق کبھی صحرا کبھی سمندر ہے کبھی گنگا کے آب جیسا عشق سو دعاؤں کا مستقل احساس بندگی کے ثواب جیسا عشق آب زم زم ہے اس کو پی لیجے ہے مقدس ...

    مزید پڑھیے

    راہ کو آزما کے دیکھو تو

    راہ کو آزما کے دیکھو تو اک قدم پھر بڑھا کے دیکھو تو ایک ننھی سی آرزو کے لیے خواب میں گھر بنا کے دیکھو تو عشق اک معجزہ سا ہوتا ہے تم کبھی دل لگا کے دیکھو تو ان سوالوں سے کچھ نہیں ہوگا تم مجھے آزما کے دیکھو تو

    مزید پڑھیے

    شاہراہیں نہیں ڈگر تو ہے

    شاہراہیں نہیں ڈگر تو ہے منزلیں نا سہی سفر تو ہے دور صحرا میں ایک چھوٹا سا بے ثمر ہی سہی شجر تو ہے مختصر گو ہے داستان مری اس کے انجام میں اثر تو ہے ظلمت شب گراں ہے یہ مانا رات کے بعد پھر سحر تو ہے ہیں دریچے اداس در ویراں کچھ نہیں پھر بھی اپنا گھر تو ہے میرے الفاظ میں کشش نہ ...

    مزید پڑھیے

    مرا وجود مرے اعتبار جیسا ہے

    مرا وجود مرے اعتبار جیسا ہے کبھی وصال کبھی انتظار جیسا ہے مجھے تو اس کی مسیحائی پر تھا ناز بہت مگر وہ خود ہی بڑا بے قرار جیسا ہے مرے ضمیر پہ ہے بوجھ میرے ماضی کا جو میری ذات پہ اب تک ادھار جیسا ہے عجیب ایک معمہ ہے عشق بھی جگدیشؔ کبھی یہ جیت کبھی صرف ہار جیسا ہے یہاں نہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے سانسوں سے گفتگو کی ہے

    میں نے سانسوں سے گفتگو کی ہے ساتھ چلنے کی آرزو کی ہے گم شدہ وقت کے مسافر کو پھر سے پانے کی جستجو کی ہے زنگ خوردہ حیات کا کیا ذکر بات لمحوں کی آبرو کی ہے خود میں خود کو تلاش کرنے کی میں نے کوشش چہار سو کی ہے

    مزید پڑھیے

    بات کی بات رہے بات کا مفہوم رہے

    بات کی بات رہے بات کا مفہوم رہے اور تخیل مرا تازہ رہے معصوم رہے ہر نئی سوچ کو مضمون بنا لوں گا مگر میرا کردار مری ذات سے موسوم رہے میری پہچان کے سب لوگ جدا ہوتے گئے جو بچے میری طرح بے بس و مظلوم رہے آج تک بنتے رہے ہیں جو ہمارے ضامن ان سے ہم ہاتھ ملانے سے بھی محروم رہے اب تو بس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2