مرا وجود مرے اعتبار جیسا ہے
مرا وجود مرے اعتبار جیسا ہے
کبھی وصال کبھی انتظار جیسا ہے
مجھے تو اس کی مسیحائی پر تھا ناز بہت
مگر وہ خود ہی بڑا بے قرار جیسا ہے
مرے ضمیر پہ ہے بوجھ میرے ماضی کا
جو میری ذات پہ اب تک ادھار جیسا ہے
عجیب ایک معمہ ہے عشق بھی جگدیشؔ
کبھی یہ جیت کبھی صرف ہار جیسا ہے
یہاں نہ کوئی ارادہ نہ آرزوئیں ہیں
مرا جنوں مرے دل کے غبار جیسا ہے