Ishrat Qadri

عشرت قادری

  • 1926

عشرت قادری کی غزل

    نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں

    نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں حیات قرض ہے مجھ پر تو زیر بار ہوں میں پگھل نہ جائے انا شدت تمازت سے گراں ہے طبع خریدار کم عیار ہوں میں سواد شب میں اک آواز پر ہوں گرم سفر اسیر زلف نہ آوارۂ بہار ہوں میں حنائی ہاتھوں سے چہرہ چھپا رہا ہے وہ شکست عہد پہ بھی تہنیت گزار ہوں میں جو پو ...

    مزید پڑھیے

    روتا ہوں قدر دان متاع ہنر کو میں

    روتا ہوں قدر دان متاع ہنر کو میں لاؤں کہاں سے ڈھونڈھ کے اس دیدہ ور کو میں صد حاصل طرب ہے رفاقت کی یہ گھڑی وہ مجھ کو دیکھتے ہیں چراغ سحر کو میں مدت ہوئی ہے چاک گریباں سئے ہوئے کرتا ہوں یاد موسم دیوانہ گر کو میں لب پر ہیں زندگی کی دعائیں بہر نفس مایوس پا رہا ہوں مسیحا نظر کو ...

    مزید پڑھیے

    اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں

    اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں رواں صدی میں ہوا ہے جو قتل عام لکھوں نسیم صبح عبارت ہے تیری خوشبو سے صبا کی نرم روی کو ترا خرام لکھوں الجھتی سانسوں کی تفسیر خونچکاں نغمہ سکوت ٹوٹ بھی جائے تو کس کے نام لکھوں حریم ذات فروزاں ہے جس کے پرتو سے اسی جھلک کو افق پر مہ تمام ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا

    ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا برہنہ رات بھی آئی تو سبز موسم تھا ہلاکتوں کا صلہ قاتلوں سے کیا ملتا کہ قطرہ قطرہ لہو کا نظر میں شبنم تھا بکھرنے ٹوٹنے کا سلسلہ تھا راہوں میں تمام خوابوں کا تعبیر نامہ ماتم تھا گراں ہے مٹی کا ٹوٹا ہوا پیالہ اب یہی وہ ہاتھ ہیں کل جن میں ...

    مزید پڑھیے

    سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا

    سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا جنگل کی طرح شہر میں خوف و ہراس تھا دونوں ہی اجنبی تھے مگر ٹوٹ کر ملے میں درد آشنا وہ ستارہ شناس تھا کس تمکنت سے انجمن آراستہ کئے تنہائیوں میں کوئی مرے آس پاس تھا آنکھوں سے میری صبح تک آنسو نہ تھم سکے کل رات وہ ملا تو بہت ہی اداس تھا اپنی تو ...

    مزید پڑھیے

    تاب نگاہ تھی تو نظارہ بھی دوست تھا

    تاب نگاہ تھی تو نظارہ بھی دوست تھا اس چشم نرگسیں کا اشارہ بھی دوست تھا ٹوٹا تو آسماں سے خلاؤں میں کھو گیا جب تک چمک رہا تھا ستارہ بھی دوست تھا ہم کھیلتے تھے آگ سے جس سن میں ان دنوں چنگاریاں تھیں پھول شرارا بھی دوست تھا اٹھکھیلیاں تھیں ریت پہ موجوں کی دور تک ٹھہری ہوئی ندی کا ...

    مزید پڑھیے

    دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں

    دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں ہر شخص با شعور ہے میں بے شعور ہوں ہجرت مرا نصیب ہے پرواز مشغلہ گنبد کے دائرے میں مثال طیور ہوں گندم کی خوشبو رقص میں رکھتی ہے رات دن مستی بھری شراب کے نشے میں چور ہوں صدیوں سے بے لباس دریدہ بدن اداس تصویر کائنات میں بے رنگ و نور ہوں بوسیدہ ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ میں جب تک قلم تھا تجربے لکھتے رہے

    ہاتھ میں جب تک قلم تھا تجربے لکھتے رہے ہم زمیں پر آسماں کے مشورے لکھتے رہے عمر کتنی کٹ گئی ہجرت میں سوچا ہی نہیں چہرے کی ساری لکیریں آئنہ لکھتے رہے موسموں کی دستکیں چیخوں میں دب کر رہ گئیں گیت کی فرمائشیں تھیں مرثیے لکھتے رہے تم نہ پڑھنا وہ سفر نامہ جو نوک خار پر کو بہ کو صحرا ...

    مزید پڑھیے

    یوں زندگی گزر رہی ہے میری

    یوں زندگی گزر رہی ہے میری جو ان کی ہے وہی خوشی ہے میری دیکھے تھے فرش گل کے خواب لیکن شعلوں سے رہگزر سجی ہے میری میں لمحہ لمحہ جاتا رہا ہوں آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میری یاروں میں مل سکا نہ کوئی تجھ سا کہنے کو سب سے دوستی ہے میری آنکھوں میں جھانک کر نہ دیکھا تم نے لوگوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے

    ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے اک نئی صبح بھی ہے شام الم سے آگے دشت میں کس سے کریں آبلہ پائی کا گلا رہنما کوئی نہیں نقش قدم سے آگے ساز میں کھوئے رہے سوز نہ سمجھا کوئی درد کی ٹیس تھی پازیب کی چھم سے آگے اے خوشا عزم جواں ذوق سفر جوش طلب حادثے بڑھ نہ سکے اپنے قدم سے آگے یاد ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2