Ishrat Qadri

عشرت قادری

  • 1926

عشرت قادری کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں

    نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں حیات قرض ہے مجھ پر تو زیر بار ہوں میں پگھل نہ جائے انا شدت تمازت سے گراں ہے طبع خریدار کم عیار ہوں میں سواد شب میں اک آواز پر ہوں گرم سفر اسیر زلف نہ آوارۂ بہار ہوں میں حنائی ہاتھوں سے چہرہ چھپا رہا ہے وہ شکست عہد پہ بھی تہنیت گزار ہوں میں جو پو ...

    مزید پڑھیے

    روتا ہوں قدر دان متاع ہنر کو میں

    روتا ہوں قدر دان متاع ہنر کو میں لاؤں کہاں سے ڈھونڈھ کے اس دیدہ ور کو میں صد حاصل طرب ہے رفاقت کی یہ گھڑی وہ مجھ کو دیکھتے ہیں چراغ سحر کو میں مدت ہوئی ہے چاک گریباں سئے ہوئے کرتا ہوں یاد موسم دیوانہ گر کو میں لب پر ہیں زندگی کی دعائیں بہر نفس مایوس پا رہا ہوں مسیحا نظر کو ...

    مزید پڑھیے

    اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں

    اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں رواں صدی میں ہوا ہے جو قتل عام لکھوں نسیم صبح عبارت ہے تیری خوشبو سے صبا کی نرم روی کو ترا خرام لکھوں الجھتی سانسوں کی تفسیر خونچکاں نغمہ سکوت ٹوٹ بھی جائے تو کس کے نام لکھوں حریم ذات فروزاں ہے جس کے پرتو سے اسی جھلک کو افق پر مہ تمام ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا

    ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا برہنہ رات بھی آئی تو سبز موسم تھا ہلاکتوں کا صلہ قاتلوں سے کیا ملتا کہ قطرہ قطرہ لہو کا نظر میں شبنم تھا بکھرنے ٹوٹنے کا سلسلہ تھا راہوں میں تمام خوابوں کا تعبیر نامہ ماتم تھا گراں ہے مٹی کا ٹوٹا ہوا پیالہ اب یہی وہ ہاتھ ہیں کل جن میں ...

    مزید پڑھیے

    سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا

    سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا جنگل کی طرح شہر میں خوف و ہراس تھا دونوں ہی اجنبی تھے مگر ٹوٹ کر ملے میں درد آشنا وہ ستارہ شناس تھا کس تمکنت سے انجمن آراستہ کئے تنہائیوں میں کوئی مرے آس پاس تھا آنکھوں سے میری صبح تک آنسو نہ تھم سکے کل رات وہ ملا تو بہت ہی اداس تھا اپنی تو ...

    مزید پڑھیے

تمام