نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں
نگاہ آئینہ ہے عکس مستعار ہوں میں
حیات قرض ہے مجھ پر تو زیر بار ہوں میں
پگھل نہ جائے انا شدت تمازت سے
گراں ہے طبع خریدار کم عیار ہوں میں
سواد شب میں اک آواز پر ہوں گرم سفر
اسیر زلف نہ آوارۂ بہار ہوں میں
حنائی ہاتھوں سے چہرہ چھپا رہا ہے وہ
شکست عہد پہ بھی تہنیت گزار ہوں میں
جو پو پھٹے تو نوید سحر ملے عشرتؔ
ہزار راتوں سے سرتاپا انتظار ہوں میں