Ishrat Qadri

عشرت قادری

  • 1926

عشرت قادری کی غزل

    گمشدہ سائے ڈھونڈھتا ہوں میں

    گمشدہ سائے ڈھونڈھتا ہوں میں لمحہ بن کر ٹھہر گیا ہوں میں ظاہری شکل میری زندہ ہے اور اندر سے مر گیا ہوں میں ریزہ ریزہ کیا حوادث نے اپنے ذرات چن رہا ہوں میں کون دیکھے گا مجھ میں اب چہرہ آئینہ تھا بکھر گیا ہوں میں وہ رفاقت ہے اب نہ وہ شفقت کتنی آنکھوں میں جھانکتا ہوں میں سسکیاں ...

    مزید پڑھیے

    شام کجلائی ہوئی رات ابھاگن جیسی

    شام کجلائی ہوئی رات ابھاگن جیسی رت نہیں آتی کسی گاؤں میں ساون جیسی رنگ ٹیسو میں کھلے ہیں تری چنری کی طرح بن میں پھولوں کی مہک ہے ترے آنگن جیسی اس کی آواز میں ہے سات سروں کا سنگیت بات بھی وہ کرے تو بجتی ہے جھانجھن جیسی رات کی ویشیا لاکھ آنکھوں میں کاجل پارے صبح مانگ اپنی سجائے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک سجدہ کہ جو بے رکوع ہوتا ہے

    وہ ایک سجدہ کہ جو بے رکوع ہوتا ہے عجب مقام خشوع و خضوع ہوتا ہے بساط الٹتی ہے شب کی ستارے بجھتے ہیں چراغ گل کرو سورج طلوع ہوتا ہے مورخوں سے کہو لکھیں اک نئی تاریخ وہ آسمان زمیں سے رجوع ہوتا ہے زبان ملتی ہے دھڑکن کو استعاروں کی بیان دل کا محل وقوع ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    ہم سے پوچھا کیا بیتی ہے آخر شب کے ماروں پر

    ہم سے پوچھا کیا بیتی ہے آخر شب کے ماروں پر صحرا صحرا رنگ بکھیرے رقص کیا انگاروں پر اک سایہ شرماتا لجاتا راہ میں تنہا چھوڑ گیا میں پرچھائیں ڈھونڈ رہا ہوں ٹوٹی ہوئی دیواروں پر سرگشتہ تھے موج ہوا سے بیت گیا وہ موسم تو ہم برگ خزاں کی مانند اب آوارہ ہیں کہساروں پر بھولی بسری یادیں ...

    مزید پڑھیے

    کھیلا بچپن جھوما لڑکپن لہکی جوانی چوباروں میں

    کھیلا بچپن جھوما لڑکپن لہکی جوانی چوباروں میں لاٹھی تھامے دیکھا بڑھاپا نگری کے گلیاروں میں نرت پہ جھومیں بھاؤ پہ لہکیں مدرا پی کر بہکیں لوگ کون سنے جو چیخیں دبی ہیں پائل کی جھنکاروں میں بھولے بسرے سپنے کھوجیں بیاکل نیناں بے کل ہردے چندر کرن سی مسکاتی تھی دہکے ہوئے انگاروں ...

    مزید پڑھیے

    بہت حساس و نازک آبگینے والا میں تنہا

    بہت حساس و نازک آبگینے والا میں تنہا شرابیں پھینک کر زہراب پینے والا میں تنہا نئے لشکر نئے نیزے نئی شرطیں ہیں بیعت کی یہ کس کوفے میں ہوں مکے مدینے والا میں تنہا لہو سے کس طرح تاریخ لکھوں عصر حاضر کی ہزاروں سر کٹی لاشوں میں جینے والا میں تنہا سخن نا آشنا صاحب قراں اہل سماعت ...

    مزید پڑھیے

    غنچہ جو سر شاخ چٹکتے ہوئے دیکھا

    غنچہ جو سر شاخ چٹکتے ہوئے دیکھا پہلو میں بہت دل کو دھڑکتے ہوئے دیکھا مہندی رچے ہاتھوں نے اٹھایا ہی تھا گھونگھٹ اک شعلۂ جوالہ لپکتے ہوئے دیکھا وہ تیرے بچھڑنے کا سماں یاد جب آیا بیتے ہوئے لمحوں کو سسکتے ہوئے دیکھا بھولا نہیں احساس ترے لمس کی خوشبو تنہائی میں انفاس مہکتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2