اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں
اٹھاؤ لوح و قلم حادثے تمام لکھوں
رواں صدی میں ہوا ہے جو قتل عام لکھوں
نسیم صبح عبارت ہے تیری خوشبو سے
صبا کی نرم روی کو ترا خرام لکھوں
الجھتی سانسوں کی تفسیر خونچکاں نغمہ
سکوت ٹوٹ بھی جائے تو کس کے نام لکھوں
حریم ذات فروزاں ہے جس کے پرتو سے
اسی جھلک کو افق پر مہ تمام لکھوں
کوئی تو صبح رفاقت سے کر سکوں تعبیر
کوئی تو شام ترے ساتھ اپنے نام لکھوں
چھلک رہی ہے صبوحی قدم کی لغزش سے
سیاہ چشم کی گردش کو دور جام لکھوں
عجب اشارے ہیں نیچی نگاہ کے عشرتؔ
وہ جتنے رنج بھی دے خود کو شاد کام لکھوں