سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا

سہمے سے تھے پرند بسیرا اداس تھا
جنگل کی طرح شہر میں خوف و ہراس تھا


دونوں ہی اجنبی تھے مگر ٹوٹ کر ملے
میں درد آشنا وہ ستارہ شناس تھا


کس تمکنت سے انجمن آراستہ کئے
تنہائیوں میں کوئی مرے آس پاس تھا


آنکھوں سے میری صبح تک آنسو نہ تھم سکے
کل رات وہ ملا تو بہت ہی اداس تھا


اپنی تو انتشار میں گزری تمام عمر
وہ کوئی اور ہیں جنہیں ماحول راس تھا


اس نے کچھ اس ادا سے پذیرائی کی مری
تہذیب حسن پر میں سراپا سپاس تھا


سمت سفر بدل دے گا وہ اگلے موڑ پر
عشرتؔ مجھے گماں تھا نہ کوئی قیاس تھا