Ishrat moin Seemaa

عشرت معین سیما

عشرت معین سیما کی غزل

    اس چشم نم سے منظر حیراں چلا گیا

    اس چشم نم سے منظر حیراں چلا گیا خوابوں کا اک جہان گلستاں چلا گیا شہروں میں آ کے بس گئے حیوان جس گھڑی غاروں میں پھر سے آج انساں چلا گیا کچھ وسوسوں میں ایسے کٹی عمر بے اماں اس زندگی سے رشتۂ ایقاں چلا گیا شرطوں پہ آج کل تو نبھاتے ہیں عاشقی تب ہی تو چاہتوں سے یہ پیماں چلا گیا زاہد ...

    مزید پڑھیے

    موسم بھی یاد یار میں دلگیر ہو گیا

    موسم بھی یاد یار میں دلگیر ہو گیا تنہائیوں سے میری بغل گیر ہو گیا دامن پہ میرے داغ لگانے کی ضد میں وہ کردار کی وہ اپنے ہی تشہیر ہو گیا بچوں نے مجھ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا رشتہ یہ میرے پاؤں کی زنجیر ہو گیا مرنے سے اس کو اپنے کبھی ڈر نہیں لگا جینا جب اس کے واسطے تعزیر ہو گیا اللہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرا وعدہ ہے سبب دل کے بہل جانے کا

    تیرا وعدہ ہے سبب دل کے بہل جانے کا موسم ہجر میں ہر پھول کے کھل جانے کا خامشی آگ لگاتی ہے مرے چاروں اور مجھ کو افسوس ہے الفاظ کے جل جانے کا قتل گاہوں میں رکھے آئنے دیکھے تو کہا کتنا سامان تھا قاتل کے دہل جانے کا عمر رفتہ کے ہر اک طاق پہ جلتا ہے دیا تم سے ملنے کا بچھڑنے کا سنبھل ...

    مزید پڑھیے

    یاد ہے گھر کی دیواروں کو سہارا کرنا

    یاد ہے گھر کی دیواروں کو سہارا کرنا ان سے راتوں میں فقط ذکر تمہارا کرنا جانے والے نے ابھی رخت سفر باندھا ہے تم بھی اب زہر جدائی کو گوارا کرنا گھر کی دہلیز پہ رکھ دینا دیا جلتا ہوا لوٹ آنے کا بس اتنا ہی اشارہ کرنا عقل سمجھائے گی دل لگتی دلیلیں دے کر پھر بھی ہرگز نہ کبھی عشق ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھوں کی بے رنگ لکیریں پڑھ لینا

    ہاتھوں کی بے رنگ لکیریں پڑھ لینا خون میں ڈوبی کچھ تحریریں پڑھ لینا کالی جلدوں والے روشن مکتب سے حق کے حرف کی کچھ تنویریں پڑھ لینا مرنے والا آنکھ کھلی کیوں رکھتا ہے ان مٹ خوابوں کی تعبیریں پڑھ لینا نیلامی میں بیچ رہے ہو رشتوں کو گھر کی زینت تھیں تصویریں پڑھ لینا سود و زیاں پر ...

    مزید پڑھیے

    خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے

    خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے قامت شوق کسی قد کو نہیں مانتی ہے بوئے گل ہو کہ ہوا ہو کہ محبت کہ وبا اتنی سرکش ہے کہ سرحد کو نہیں مانتی ہے وہ اندھیروں کا پجاری ہے اسے کیا معلوم روشنی رات کی آمد کو نہیں مانتی ہے کوئی صورت دل آوارہ کی یہ بے چینی کاخ یاقوت کی مسند کو نہیں مانتی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے خود پنجرے کی کھڑکی کھولی ہے

    میں نے خود پنجرے کی کھڑکی کھولی ہے چڑیا اپنے آپ کہاں کچھ بولی ہے سورج نے جنگل میں ڈیرے ڈالے ہیں پت جھڑ نے بھی کھیلی آنکھ مچولی ہے یوں باہیں پھیلائے ملتی ہے آ کر بارش جیسے مٹی کی ہمجولی ہے ہائے تشخص کی ماری اس دنیا میں سب کی اپنی ریتی اپنی بولی ہے دیپ جلائے رستہ تکتی رہتی ...

    مزید پڑھیے

    اگر روؤں تو میری آنکھ اکثر نم نہیں ہوتی

    اگر روؤں تو میری آنکھ اکثر نم نہیں ہوتی اگر ہنسنے لگوں پھر بھی اداسی کم نہیں ہوتی کبھی یادیں مہکتی ہیں ستارے رقص کرتے ہیں شب ہجراں ہمیشہ ہی دلیل غم نہیں ہوتی میں دیکھوں گی ذرا فرصت سے اپنے عکس خاکی کو ابھی تیری ضیا ہی آنکھ میں ہمدم نہیں ہوتی بڑی لمبی مسافت ہے حدیث دل ہے اک ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ تھامے چل پڑا ہے قافلہ امید کا

    ہاتھ تھامے چل پڑا ہے قافلہ امید کا ہر گلی کوچے میں برپا جشن جیسے عید کا سن کے آہٹ دوڑتا ہے جسم میں ایسے لہو دیکھ کر آیا ہو بالک چاند جیسے عید کا سانس تھامے منتظر ہوں کم سخن کے لب ہلیں ختم ہو یہ سلسلہ خاموش اک تمہید کا موت سے وعدہ نبھانا سیکھ لے تو زندگی عمر بھر رکھا ہے تو نے ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری یاد کا اک سلسلہ رہی خوشبو

    تمہاری یاد کا اک سلسلہ رہی خوشبو بہار بن کے مرا راستہ رہی خوشبو گلے لگایا مجھے ماں نے الوداع کہا تمام عمر مری راہنما رہی خوشبو عجیب رشتہ ہے بارش کا کچی مٹی سے فلک سے ارض تلک رابطہ رہی خوشبو حسیں گلاب بھی اب معتبر نہیں ٹھہرے اور اس کی باتوں سے برگشتہ ہو گئی خوشبو کیے ہیں نذر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2