اس چشم نم سے منظر حیراں چلا گیا

اس چشم نم سے منظر حیراں چلا گیا
خوابوں کا اک جہان گلستاں چلا گیا


شہروں میں آ کے بس گئے حیوان جس گھڑی
غاروں میں پھر سے آج انساں چلا گیا


کچھ وسوسوں میں ایسے کٹی عمر بے اماں
اس زندگی سے رشتۂ ایقاں چلا گیا


شرطوں پہ آج کل تو نبھاتے ہیں عاشقی
تب ہی تو چاہتوں سے یہ پیماں چلا گیا


زاہد کی کچھ حکایتیں سن کر لگا مجھے
بس دین رہ گیا یہاں ایماں چلا گیا


یہ دھڑکنیں تمہاری تو سیماؔ فریب ہیں
دل سے اگر جو جذبۂ احساں چلا گیا