یاد ہے گھر کی دیواروں کو سہارا کرنا
یاد ہے گھر کی دیواروں کو سہارا کرنا
ان سے راتوں میں فقط ذکر تمہارا کرنا
جانے والے نے ابھی رخت سفر باندھا ہے
تم بھی اب زہر جدائی کو گوارا کرنا
گھر کی دہلیز پہ رکھ دینا دیا جلتا ہوا
لوٹ آنے کا بس اتنا ہی اشارہ کرنا
عقل سمجھائے گی دل لگتی دلیلیں دے کر
پھر بھی ہرگز نہ کبھی عشق دوبارہ کرنا
اس نے تصویر مجھے دی ہے یہ کہہ کر سیماؔ
اچھی یادوں سے نہ ہرگز تو کنارہ کرنا