خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے
خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے
قامت شوق کسی قد کو نہیں مانتی ہے
بوئے گل ہو کہ ہوا ہو کہ محبت کہ وبا
اتنی سرکش ہے کہ سرحد کو نہیں مانتی ہے
وہ اندھیروں کا پجاری ہے اسے کیا معلوم
روشنی رات کی آمد کو نہیں مانتی ہے
کوئی صورت دل آوارہ کی یہ بے چینی
کاخ یاقوت کی مسند کو نہیں مانتی ہے
مسترد کرتے ہیں کچھ لوگ خدا کو بھی مگر
ایک دنیا ہے جو اس رد کو نہیں مانتی ہے
گھونسلہ شاخ سے گرتا ہے ہوا کے ہاتھوں
اسی چڑیا کا جو برگد کو نہیں مانتی ہے
یہ ترا نام و نسب دل کے نہ کام آئے گا
یہ محبت ہے کسی حد کو نہیں مانتی ہے
ایک سیلاب امنڈ آیا ہے دل میں سیماؔ
تشنگی درد کے اس حد کو نہیں مانتی ہے