ہاتھ تھامے چل پڑا ہے قافلہ امید کا

ہاتھ تھامے چل پڑا ہے قافلہ امید کا
ہر گلی کوچے میں برپا جشن جیسے عید کا


سن کے آہٹ دوڑتا ہے جسم میں ایسے لہو
دیکھ کر آیا ہو بالک چاند جیسے عید کا


سانس تھامے منتظر ہوں کم سخن کے لب ہلیں
ختم ہو یہ سلسلہ خاموش اک تمہید کا


موت سے وعدہ نبھانا سیکھ لے تو زندگی
عمر بھر رکھا ہے تو نے منتظر اک دید کا


یوں تعلق ہے ہماری دھڑکنوں کا آپ سے
دل کے صحراؤں میں بادل ہو کوئی امید کا


پیش جاں سیماؔ کا نذرانہ ہو گر اس کو قبول
منتظر ہے دل ہمارا آپ کی تائید کا