وحشت سی وحشت ہوتی ہے

وحشت سی وحشت ہوتی ہے
زندہ ہوں حیرت ہوتی ہے


جل بجھنے والوں سے پوچھو
غم کی کیا حدت ہوتی ہے


رہن نہ رکھ دینا بینائی
اس کی بھی مدت ہوتی ہے


سارے قرض چکا دینے کی
کبھی کبھی عجلت ہوتی ہے


دل اور جان کے سودے جو ہیں
ان میں کب حجت ہوتی ہے


خود سے جھوٹ کہاں تک بولیں
تھوڑی سی خفت ہوتی ہے


اپنے آپ سے ملنے میں بھی
اب کتنی دقت ہوتی ہے


خود سے باتیں کرنے کی بھی
اب کس کو فرصت ہوتی ہے


کچھ کہہ لو روکھی سوکھی میں
اپنے ہاں برکت ہوتی ہے


سونا سی مٹی کے گھر میں
کب ہم سے محنت ہوتی ہے


دھان ہمارے چڑیا کھائیں
چڑیوں کو عادت ہوت ہوتی ہے


بچوں سے کیا شکوہ کرنا
مٹی میں الفت ہوتی ہے


سبز کواڑوں کی جھریوں میں
جگنو یا حیرت ہوتی ہے


ٹاٹ کے مٹ میلے پردوں میں
کیا اجلی رنگت ہوتی ہے


پھٹی پرانی سی چنری میں
کیا بھولی صورت ہوتی ہے


چاول کی پیلی روٹی میں
کیا سوندھی لذت ہوتی ہے


رلی کے ایک اک ٹانکے میں
پوروں کی چاہت ہوتی ہے


جاڑے اوڑھ کے سو جانے میں
کب کوئی زحمت ہوتی ہے


شام کو تیرا ہنس کر ملنا
دن بھر کی اجرت ہوتی ہے