عداوتیں نصیب ہو کے رہ گئیں
عداوتیں نصیب ہو کے رہ گئیں
محبتیں رقیب ہو کے رہ گئیں
پرند ہیں نہ آنگنوں میں پیڑ ہیں
یہ بستیاں عجیب ہو کے رہ گئیں
ترس رہی ہیں یوں بہار کو رتیں
غریب کا نصیب ہو کے رہ گئیں
بس ایک پل دھنک کی ساری شوخیاں
مرے بہت قریب ہو کے رہ گئیں
مرے دکھوں کا ذکر شہر شہر ہے
اداسیاں نقیب ہو کے رہ گئیں
میں خود سے جب بچھڑ گئی تو بس تری
دعائیں ہی حبیب ہو کے رہ گئیں
روایتوں کی قتل گاہ عشق میں
یہ لڑکیاں صلیب ہو کے رہ گئیں