Ishrat Afreen

عشرت آفریں

تانیثی خیالات کی حامل معروف شاعرہ، گہرے سماجی اورتخلیقی شعور کے ساتھ شاعری کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

Renowned feminist poet, known for her social consciousness and creative sensibility.

عشرت آفریں کی غزل

    تم سے بھی بات چیت ہو دل سے بھی گفتگو رہے

    تم سے بھی بات چیت ہو دل سے بھی گفتگو رہے خواب و خبر کا سلسلہ یونہی کبھو کبھو رہے درد بھی ہاتھ تھام لے زخم بھی بولنے لگیں یعنی نہال شاخ غم ایسے ہی با نمو رہے عشق میں احتیاط ہی گویا ہے پاس وضع عشق چاک ہوں صد ہزار اور دامن دل رفو رہے تو جو نہیں تو میں نہیں میں جو نہیں تو تو ...

    مزید پڑھیے

    پرانے محلے کا سنسان آنگن

    پرانے محلے کا سنسان آنگن مجھے پا کے تھا کتنا حیران آنگن یہ تہذیب کو پاؤں چلنا سکھائیں سمیٹے ہیں صدیوں کے امکان آنگن وہ دیوار سے جھانکتی شوخ آنکھیں وہ پہرے پہ بوڑھا نگہبان آنگن کوئی جست میں پار کرتا ہے چوکھٹ کسی کے لئے اک بیابان آنگن کسی کے لئے پایۂ تخت ہے یہ کسی کے لئے ایک ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی

    یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی رنج یہ ہے کہ مری ذات مرا زنداں تھی صبح سے آئینہ چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے رات ہی خواب میں دیکھا تھا کہ مانگ افشاں تھی سوکھتی جاتی ہے اب ڈھلتی ہوئی عمر کے ساتھ باڑھ مہندی کی جو دروازے پہ اپنے ہاں تھی شمعیں اور سائے سے دیکھے گئے طوفان کی رات اس ...

    مزید پڑھیے

    کب تک پھرنا غاروں اور گپھاؤں میں

    کب تک پھرنا غاروں اور گپھاؤں میں آؤ واپس لوٹ چلیں اب گاؤں میں صحرا میں اک ریت محل تعمیر کریں سکھ سے بیٹھیں انگوروں کی چھاؤں میں روح بھٹکتی ہے باغی شہزادی کی سنتے ہیں ان خالی محل سراؤں میں مجھ میں چھٹی حس جاگی تازہ مٹی کی طغیانی ہے پھر پانچوں دریاؤں میں گیا تو سردار کے باغ میں ...

    مزید پڑھیے

    نمو کے عرفاں سے بے خبر ہوں

    نمو کے عرفاں سے بے خبر ہوں کہ لالۂ دشت بے شجر ہوں یہ زرد پھولوں کے کنج دیکھو یہاں بھی آؤ کہ میں ادھر ہوں وہ پھول ہے شاخ پر رہے گا میں اس کی خوشبو ہوں در بدر ہوں وہ زندگی کی سزا کا لمحہ اس ایک لمحے کا میں ثمر ہوں مجھے اٹھانے کا حق ہے کس کو کہ اپنی تربت پہ نوحہ گر ہوں وہ کج کلاہوں ...

    مزید پڑھیے

    کیسا خزانہ یہ تو زاد سفر نہیں رکھتی

    کیسا خزانہ یہ تو زاد سفر نہیں رکھتی خانہ بدوش محبت کوئی گھر نہیں رکھتی یادوں کے بستر پر تیری خوشبو کاڑھوں اس کے سوا تو اور میں کوئی ہنر نہیں رکھتی کوئی بھی آواز اس کی آہٹ نہیں ہوتی کوئی بھی خوشبو اس کا پیکر نہیں رکھتی میں جنگل ہوں اور اپنی تنہائی پر خوش میری جڑیں زمین میں ہیں ...

    مزید پڑھیے

    طاق میں کون رکھ گیا ایک دیا اور ایک پھول

    طاق میں کون رکھ گیا ایک دیا اور ایک پھول دھیان میں پھر سے جل اٹھا ایک دیا اور ایک پھول میرے تمہارے درمیاں قطرۂ اشک رائیگاں پچھلی رتوں کا سانحہ ایک دیا اور ایک پھول خواب ہی خواب میں کٹی عمر تمام جل بجھی تیرا کہا مرا سنا ایک دیا اور ایک پھول شام فراق کی قسم اور تو کچھ نہ پاس ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے

    جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے رات گئے کچھ سائے چھت پر آتے تھے صبح وہ کیاری پھولوں سے بھر جاتی تھی تم جس کی بیلوں میں چھپ کر آتے تھے میں جس رستے پر نکلی اس رستے میں صحراؤں کے بیچ سمندر آتے تھے چاند کی دھیمی دھیمی چاپ ابھرتے ہی سارے سپنے پھول پہن کر آتے تھے اس سے میری روح میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ جن کو عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں

    وہ جن کو عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں سنا ہے اپنی چوڑیاں ہی پیس پیس پی گئیں بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں کبھی نہ ایسی فصل میرے گاؤں میں ہوئی کہ جب کسم کے بدلے چنریاں گلاب سے رنگی گئیں وہ جن کے پیرہن کی خوشبوئیں ہوا پہ قرض ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے عذاب لکھ رہی تھی

    میں اپنے عذاب لکھ رہی تھی زخموں کا حساب لکھ رہی تھی پھولوں کی زباں کی شاعرہ تھی کانٹوں سے گلاب لکھ رہی تھی اس پیڑ کے کھوکھلے تنے پر اک عمر کے خواب لکھ رہی تھی آنکھوں سے سوال پڑھ رہی تھی پلکوں سے جواب لکھ رہی تھی ہر بوند شکستہ بام و در پر بارش کا عتاب لکھ رہی تھی اک نسل کے خواب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4