نمو کے عرفاں سے بے خبر ہوں

نمو کے عرفاں سے بے خبر ہوں
کہ لالۂ دشت بے شجر ہوں


یہ زرد پھولوں کے کنج دیکھو
یہاں بھی آؤ کہ میں ادھر ہوں


وہ پھول ہے شاخ پر رہے گا
میں اس کی خوشبو ہوں در بدر ہوں


وہ زندگی کی سزا کا لمحہ
اس ایک لمحے کا میں ثمر ہوں


مجھے اٹھانے کا حق ہے کس کو
کہ اپنی تربت پہ نوحہ گر ہوں


وہ کج کلاہوں کی بستیاں ہیں
وہاں نہ لے چل میں ننگے سر ہوں