وہ جن کو عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں
وہ جن کو عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں
سنا ہے اپنی چوڑیاں ہی پیس پیس پی گئیں
بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو
جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں
کبھی نہ ایسی فصل میرے گاؤں میں ہوئی کہ جب
کسم کے بدلے چنریاں گلاب سے رنگی گئیں
وہ جن کے پیرہن کی خوشبوئیں ہوا پہ قرض تھیں
رتوں کی وہ اداس شہزادیاں چلی گئیں
ان انگلیوں کو چومنا بھی بدعتیں شمار ہو
وہ جن سے خاک پر نمو کی آیتیں لکھی گئیں
سروں کا یہ لگان اب کے فصل کون لے گیا
یہ کس کی کھیتیاں تھیں اور کس کو سونپ دی گئیں