یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی
یہ نہیں غم کہ میں پابند غم دوراں تھی
رنج یہ ہے کہ مری ذات مرا زنداں تھی
صبح سے آئینہ چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
رات ہی خواب میں دیکھا تھا کہ مانگ افشاں تھی
سوکھتی جاتی ہے اب ڈھلتی ہوئی عمر کے ساتھ
باڑھ مہندی کی جو دروازے پہ اپنے ہاں تھی
شمعیں اور سائے سے دیکھے گئے طوفان کی رات
اس حویلی میں جو مدت سے بہت ویراں تھی
خاک میں کھیل کے سب نشو و نما پائی ہے
بنت افلاس ہوں میں بھوک تو میری ماں تھی
پڑھ رہا تھا وہ کسی اور کے آنچل پہ نماز
میں بس آئینہ و قرآن لئے حیراں تھی