Ishaq Asar

اسحٰق اثر

اسحٰق اثر کی غزل

    بستی میں زندگی کے نشاں تک نہیں رہے

    بستی میں زندگی کے نشاں تک نہیں رہے ایسی ہوا چلی کہ مکاں تک نہیں رہے سیلاب ساتھ لے گیا ساحل کو اس لئے تنکوں سے مرا ربط وہاں تک نہیں رہے سورج ہنسا تو رات کے سائے تمام تر یوں مٹ گئے کہ ان کے نشاں تک نہیں رہے اپنا شعور و فکر ہے اپنی ادھیڑ بن ہم لوگ اب کسی پہ گراں تک نہیں رہے کی جن کے ...

    مزید پڑھیے

    سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری

    سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری ذرے ذرے پہ جہاں کے ہے خدائی تیری میرا احساس تو چھو بھی نہ سکا عکس ترا میں نے لفظوں سے ہی تصویر بنائی تیری روشنی تیری ہی رہتی ہے نبرد بینا دی ہے کانوں کو بھی آواز سنائی تیری ہونٹ ملتے ہیں تو بس تیری عنایت کے سبب کیسے الفاظ کریں شکر ادائی ...

    مزید پڑھیے

    جب رابطہ قلم کا روانی میں آئے گا

    جب رابطہ قلم کا روانی میں آئے گا کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا برسات چھت کے راستے گھر میں اتر گئی سورج بھی اب تو ڈوب کے پانی میں آئے گا بچپن تو لا شعور ہے ہنس کر گزار دے لطف غم حیات جوانی میں آئے گا پہلو بدل رہے ہیں ابھی سے وہ اس لئے ان کا بھی ذکر میری کہانی میں آئے گا تم ...

    مزید پڑھیے

    ہتھیلیوں میں چاند کو نہارنے کی دھن میں ہوں

    ہتھیلیوں میں چاند کو نہارنے کی دھن میں ہوں زمیں پہ ایک آسماں اتارنے کی دھن میں ہوں سنا ہے کوئی بھی عمل گیا کبھی نہ رائیگاں میں دشمنوں کو دوستی سے مارنے کی دھن میں ہوں پڑا ہوا ہوں اس لئے میں ساحلوں کی گود میں لہر کے ساتھ زندگی گزارنے کی دھن میں ہوں مجھے معاف مت کرو سزا کا مستحق ...

    مزید پڑھیے

    گمان ہے کہ وہم ہے کہ ہے چھلاوا سا

    گمان ہے کہ وہم ہے کہ ہے چھلاوا سا یہ کون ہے مرے دل میں ترے علاوہ سا زمین لے کے مجھے گھومتی رہی لیکن کہیں ملا نہ مرے درد کا مداوا سا کسوٹیوں پہ پرکھنے سے سچ نکلتا ہے دلیل میں تری کچھ بھی نہیں ہے دعویٰ سا بچھڑتے وقت تری آنکھ میں بھی آنسو تھے نکل رہا تھا مری آنکھ سے بھی لاوا سا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    سیاسی پیڑ ہیں برسوں سے پھل نہیں آئے

    سیاسی پیڑ ہیں برسوں سے پھل نہیں آئے ادھر تو مسئلے آئے ہیں حل نہیں آئے اسے بھی شوق مسلسل فریب دینے کا کبھی جبین پہ اپنی بھی شل نہیں آئے اسے یہ ڈر کہ جسے انقلاب کہتے ہیں وہ راستہ مرے گھر سے نکل نہیں آئے یہاں تو ترک وفا کا رواج عام ہوا ہمیں کو فیصلے کرنا اٹل نہیں آئے کھلے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    فاصلوں کی خندقیں بھرنا ضروری ہو گیا

    فاصلوں کی خندقیں بھرنا ضروری ہو گیا زندگی کے واسطے مرنا ضروری ہو گیا تھی ادھوری داستان زندگی تیرے بغیر ذکر تیرا اس لئے کرنا ضروری ہو گیا بن گئی ہے آج ہر شے بے یقینی کی دلیل اپنے سائے سے بھی اب ڈرنا ضروری ہو گیا جنگ روٹی کی نہیں بچوں کے مستقبل کی ہے معرکہ اب یہ بھی سر کرنا ضروری ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کا ایک سا کردار ہو نہیں سکتا

    سبھی کا ایک سا کردار ہو نہیں سکتا ہر ایک پیڑ تو پھل دار ہو نہیں سکتا بڑھے چلو کہ دھندلکوں کے پار جانا ہے غبار راہ کی دیوار ہو نہیں سکتا جہاں مزاج میں دستار بندیاں ہوں گی وہاں پہ کوئی بھی سردار ہو نہیں سکتا خرد پہ گہن کا قبضہ رہے گا کتنے دن ہمارا سوچنا بیکار ہو نہیں سکتا عجیب ...

    مزید پڑھیے