جب رابطہ قلم کا روانی میں آئے گا

جب رابطہ قلم کا روانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا


برسات چھت کے راستے گھر میں اتر گئی
سورج بھی اب تو ڈوب کے پانی میں آئے گا


بچپن تو لا شعور ہے ہنس کر گزار دے
لطف غم حیات جوانی میں آئے گا


پہلو بدل رہے ہیں ابھی سے وہ اس لئے
ان کا بھی ذکر میری کہانی میں آئے گا


تم دیکھ تو رہے ہو مجھے التفات سے
لگتا ہے کوئی زخم نشانی میں آئے گا


آنے سے گر گریز ہے تصویر بھیج دے
چہرہ تو اس کا یاد دہانی میں آئے گا


دروازے بند کیجئے آنکھوں کے اب اثرؔ
اب کون بھیگتا ہوا پانی میں آئے گا