سیاسی پیڑ ہیں برسوں سے پھل نہیں آئے

سیاسی پیڑ ہیں برسوں سے پھل نہیں آئے
ادھر تو مسئلے آئے ہیں حل نہیں آئے


اسے بھی شوق مسلسل فریب دینے کا
کبھی جبین پہ اپنی بھی شل نہیں آئے


اسے یہ ڈر کہ جسے انقلاب کہتے ہیں
وہ راستہ مرے گھر سے نکل نہیں آئے


یہاں تو ترک وفا کا رواج عام ہوا
ہمیں کو فیصلے کرنا اٹل نہیں آئے


کھلے ہوئے ہیں یہاں مجرموں کے چہرے کیوں
بیان لوگ تو اپنے بدل نہیں آئے


کوئی بھی کھولنے والا نہیں ہے دروازہ
کہ جب تلک یہاں سورج نکل نہیں آئے


سہل نہیں ہے اثرؔ گھر تلک پہنچنا بھی
اگر شمار میں رستوں کے بل نہیں آئے