سبھی کا ایک سا کردار ہو نہیں سکتا
سبھی کا ایک سا کردار ہو نہیں سکتا
ہر ایک پیڑ تو پھل دار ہو نہیں سکتا
بڑھے چلو کہ دھندلکوں کے پار جانا ہے
غبار راہ کی دیوار ہو نہیں سکتا
جہاں مزاج میں دستار بندیاں ہوں گی
وہاں پہ کوئی بھی سردار ہو نہیں سکتا
خرد پہ گہن کا قبضہ رہے گا کتنے دن
ہمارا سوچنا بیکار ہو نہیں سکتا
عجیب دور ہے اس دور میں اثرؔ صاحب
غریب صاحب دستار ہو نہیں سکتا