سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری

سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری
ذرے ذرے پہ جہاں کے ہے خدائی تیری


میرا احساس تو چھو بھی نہ سکا عکس ترا
میں نے لفظوں سے ہی تصویر بنائی تیری


روشنی تیری ہی رہتی ہے نبرد بینا
دی ہے کانوں کو بھی آواز سنائی تیری


ہونٹ ملتے ہیں تو بس تیری عنایت کے سبب
کیسے الفاظ کریں شکر ادائی تیری


میری تنگی مری آسودگی سب تیری عطا
مجھ کو مخلوق میں حاصل ہے گدائی تیری


اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے منزل آکر
جس کو مل جائے اگر راہنمائی تیری


اک طرف میری دعا ایک طرف باب اثرؔ
دونوں دیتے رہے ہونٹوں سے دہائی تیری