گمان ہے کہ وہم ہے کہ ہے چھلاوا سا
گمان ہے کہ وہم ہے کہ ہے چھلاوا سا
یہ کون ہے مرے دل میں ترے علاوہ سا
زمین لے کے مجھے گھومتی رہی لیکن
کہیں ملا نہ مرے درد کا مداوا سا
کسوٹیوں پہ پرکھنے سے سچ نکلتا ہے
دلیل میں تری کچھ بھی نہیں ہے دعویٰ سا
بچھڑتے وقت تری آنکھ میں بھی آنسو تھے
نکل رہا تھا مری آنکھ سے بھی لاوا سا
ہوا میں جذب ہے خوشبو کسی کے گیسو کی
کسی کی اور سے شاید ہے یہ بلاوا سا
اب آب دار نہیں ہے کسی کی ہستی بھی
شرافتوں کے بھی چہروں پہ ہے دکھاوا سا