Iqbal Azeem

اقبال عظیم

اقبال عظیم کی غزل

    گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں

    گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں مگر ارادۂ اظہار زیر لب بھی نہیں میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں میں صاف گو ہوں مگر اتنا بے ادب بھی نہیں جفا کی طرح مجھے ترک دوستی بھی قبول ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو اور اب بھی نہیں گزر گیا وہ طلب گاریوں کا دور بخیر خدا کا شکر ہے کب ...

    مزید پڑھیے

    زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں

    زہر کے گھونٹ بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں ہم بہرحال سلیقے سے جیے جاتے ہیں ایک دن ہم بھی بہت یاد کئے جائیں گے چند افسانے زمانے کو دئیے جاتے ہیں ہم کو دنیا سے محبت بھی بہت ہے لیکن لاکھ الزام بھی دنیا کو دئیے جاتے ہیں بزم اغیار سہی ازرہ تنقید سہی شکر ہے ہم بھی کہیں یاد کیے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ نگاہ شرم جھکی جھکی یہ جبین ناز دھواں دھواں

    یہ نگاہ شرم جھکی جھکی یہ جبین ناز دھواں دھواں مرے بس کی اب نہیں داستاں مرا کانپتا ہے رواں رواں یہ تخیلات کی زندگی یہ تصورات کی بندگی فقط اک فریب خیال پر مری زندگی ہے رواں دواں مرے دل پہ نقش ہیں آج تک وہ بہ احتیاط نوازشیں وہ غرور و ضبط عیاں عیاں وہ خلوص و ربط نہاں نہاں نہ سفر بہ ...

    مزید پڑھیے

    اللہ رے یادوں کی یہ انجمن آرائی

    اللہ رے یادوں کی یہ انجمن آرائی ہنستے ہوئے غم خانے مہکی ہوئی تنہائی کچھ تلخ حقائق نے معمول بدل ڈالے اپنوں سے کم آمیزی غیروں سے شناسائی یہ کون سا عالم ہے افسردہ مزاجی کا گلشن میں بھی ویرانی محفل میں بھی تنہائی اقبالؔ جدھر دیکھو ظلمات کے پہرے ہیں آساں طلبی ہم کو کس موڑ پہ لے ...

    مزید پڑھیے

    زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

    زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں سارا ماضی مری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے میں نے کچھ شہر بسا رکھا ہیں ویرانے میں بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں میخانے میں جام جم سے نگہ توبہ شکن تک ساقی پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند گام گام حوادث سفر میں ہیں

    ہر چند گام گام حوادث سفر میں ہیں وہ خوش نصیب ہیں جو تری رہ گزر میں ہیں تاکید ضبط عہد وفا اذن زندگی کتنے پیام اک نگہ مختصر میں ہیں ماضی شریک حال ہے کوشش کے باوجود دھندلے سے کچھ نقوش ابھی تک نظر میں ہیں للہ اس خلوص سے پرسش نہ کیجیئے طوفان کب سے بند مری چشم تر میں ہیں منزل تو خوش ...

    مزید پڑھیے

    اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے

    اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک دیوار اگر ہے تو گرا ...

    مزید پڑھیے

    ضبط بھی چاہئے ظرف بھی چاہئے اور محتاط پاس وفا چاہئے

    ضبط بھی چاہئے ظرف بھی چاہئے اور محتاط پاس وفا چاہئے زندگی دشمنوں میں بھی مشکل نہیں آدمی میں ذرا حوصلہ چاہئے ہم کو منزل شناسی پہ بھی ناز ہے اور ہم آشنائے حوادث بھی ہیں جوئے خوں سے گزرنا پڑے بھی تو کیا جستجو کو تو اک راستا چاہئے اپنے ماتھے پہ بل ڈال کر ہمیں شیش محلوں کے اندر سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ماضی سے جو ورثے میں ملے ہیں ہم کو (ردیف .. ے)

    اپنے ماضی سے جو ورثے میں ملے ہیں ہم کو ان اصولوں کی تجارت نہیں ہوگی ہم سے عہد حاضر کی ہر اک بات ہمیں دل سے قبول صرف توہین روایت نہیں ہوگی ہم سے جھوٹ بھی بولیں صداقت کے پیمبر بھی بنیں ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہوگی ہم سے زخم بھی کھائیں رقیبوں کو دعائیں بھی دیں اتنی مخدوش شرافت ...

    مزید پڑھیے

    نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا

    نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا وہ جو رزاق حقیقی ہے اسی سے مانگو رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن کہیں عجلت میں چراغوں کو بجھا مت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3