یہ نگاہ شرم جھکی جھکی یہ جبین ناز دھواں دھواں

یہ نگاہ شرم جھکی جھکی یہ جبین ناز دھواں دھواں
مرے بس کی اب نہیں داستاں مرا کانپتا ہے رواں رواں


یہ تخیلات کی زندگی یہ تصورات کی بندگی
فقط اک فریب خیال پر مری زندگی ہے رواں دواں


مرے دل پہ نقش ہیں آج تک وہ بہ احتیاط نوازشیں
وہ غرور و ضبط عیاں عیاں وہ خلوص و ربط نہاں نہاں


نہ سفر بہ شرط مآل ہے نہ طلب بہ قید سوال ہے
فقط ایک سیریٔ ذوق کو میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں


ہو طلسم عالم رنگ و بو کہ حریم انجم و کہکشاں
مرا ساتھ دے گی نظر مری وہ چھپیں گے جا کے جہاں جہاں


مری خلوتوں کی یہ جنتیں کئی بار سج کے اجڑ گئیں
مجھے بارہا یہ ہوا گماں کہ تم آ رہے ہو کشاں کشاں