زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں

زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں
اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں


سارا ماضی مری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے
میں نے کچھ شہر بسا رکھا ہیں ویرانے میں


بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج
کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں میخانے میں


جام جم سے نگہ توبہ شکن تک ساقی
پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں


پیاس کانٹوں کو بجھاتا ہے لہو سے اپنے
کتنی بالغ نظری ہے مری دیوانے میں


مجھ پہ تنقید بھی ہوتی ہے تو القاب کے ساتھ
کم سے کم اتنا سلیقہ تو ہے بیگانے میں


اس کو کیا کہتے ہیں اقبالؔ کسی سے پوچھو
دل نہ اب شہر میں لگتا ہے نہ ویرانے میں