Iqbal Azeem

اقبال عظیم

اقبال عظیم کی غزل

    ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

    ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے رات کے بعد سحر ہوگی مگر کس کے لئے ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے روشنی کم تھی مگر اتنا اندھیرا تو نہ تھا شمع امید بھی گل ہو گئی جلتے ...

    مزید پڑھیے

    سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں

    سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں پھر بھی پوچھا جا رہا ہے ہم کہاں کے لوگ ہیں ملت بیضا نے یہ سیکھا ہے صد ہا سال میں یہ یہاں کے لوگ ہیں اور وہ وہاں کے لوگ ہیں خالی پیمانے لیے بیٹھے ہیں رندان کرام مے کدہ ان کا ہے جو پیر مغاں کے لوگ ہیں ان سے مت پوچھو کہ منزل تم سے کیوں چھینی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

    کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی کچھ آج سوچ کے ہم میکدے میں آئے ہیں کوئی ہواؤں سے کہہ دو ادھر کا رخ نہ کرے چراغ ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں

    آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں مجھ کو پرسش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی اور پرسش کی اب بھی ضرورت نہیں یوں سر راہ بھی پرسش حال کی اس زمانے میں فرصت کسی کو کہاں آپ سے یہ ملاقات رسمی سہی اتنی زحمت بھی کچھ کم عنایت نہیں آپ اس درجہ افسردہ خاطر ہوں آپ کوئی اثر ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا

    مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا مجھے آپ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3