ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے رات کے بعد سحر ہوگی مگر کس کے لئے ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے روشنی کم تھی مگر اتنا اندھیرا تو نہ تھا شمع امید بھی گل ہو گئی جلتے ...