گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر ارادۂ اظہار زیر لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح مجھے ترک دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو اور اب بھی نہیں
گزر گیا وہ طلب گاریوں کا دور بخیر
خدا کا شکر ہے کب فرصت طلب بھی نہیں
مزاج وقت سے تنگ آ چکا ہے میرا ضمیر
مرے اصول بدل جائیں تو عجب بھی نہیں
گئے دنوں کا فسانہ ہے اب ہمارا وجود
وہ مفلسی بھی نہیں ہے وہ روز و شب بھی نہیں
جواب دوں گا میں کچھ مجھ سے پوچھ کر دیکھو
ابھی میں ہوش میں ہوں ایسا جاں بہ لب بھی نہیں
حسب نسب کی جو پوچھو تو شجرہ پیش کروں
خطاب کوئی نہیں ہے مرا لقب بھی نہیں