Iqbal Azeem

اقبال عظیم

اقبال عظیم کی غزل

    آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی

    آنکھوں سے نور دل سے خوشی چھین لی گئی ہم سے ہماری زندہ دلی چھین لی گئی اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے اس کی سزا میں ہم سے ہنسی چھین لی گئی کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی شکوہ مرا مزاج نہ ماتم مری سرشت ہر چند مجھ سے خندہ لبی چھین لی گئی اقبالؔ اس ...

    مزید پڑھیے

    بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے

    بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے سب منتظر ہیں سامنے تشریف لائیے آواز میں تو آپ کی بے شک خلوص ہے لیکن ذرا نقاب تو رخ سے ہٹائیے ہم مانتے ہیں آپ بڑے غم گسار ہیں لیکن یہ آستین میں کیا ہے دکھائیے اب قافلے کے لوگ بھی منزل شناس ہیں آخر کہاں کا قصد ہے کھل کر بتائیے بادہ کشوں کی اصل جگہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا

    وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا غبار وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا ...

    مزید پڑھیے

    مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

    مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ...

    مزید پڑھیے

    اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے

    اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے صبح فردا کی کرن بھی نہ جہاں تک پہنچے میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا اس سے پہلے کہ یہی بات زباں تک پہنچے تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے جو بہاروں سے چلے ...

    مزید پڑھیے

    تم غیروں سے ہنس ہنس کے ملاقات کرو ہو

    تم غیروں سے ہنس ہنس کے ملاقات کرو ہو اور ہم سے وہی زہر بھری بات کرو ہو بچ بچ کے گزر جاؤ ہو تم پاس سے میرے تم تو بخدا غیروں کو بھی مات کرو ہو نشتر سا اتر جاوے ہے سینے میں ہمارے جب ماتھے پہ بل ڈال کے تم بات کرو ہو تقوے بھی بہک جاویں ہیں محفل میں تمہاری تم اپنی ان آنکھوں سے کرامات ...

    مزید پڑھیے

    اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں

    اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں شہر بھی اجنبی نہیں لوگ بھی اجنبی نہیں ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأت عرض کی نہیں شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہم سفر راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں پرسش حال کے سوا کوئی کرے بھی کیا مگر پرسش حال ...

    مزید پڑھیے

    جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں

    جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں تاریخ عہد رفتہ بالاختصار یہ ہے گلشن جہاں جہاں تھے ویرانے رہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی

    بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی اول تو بولنے کی اجازت نہ تھی ہمیں اور ہم نے کچھ کہا بھی تو تردید کی گئی انجام کار بات شکایات پر رکی پرسش اگرچہ از رہ تمہید کی گئی تجدید التفات کی تجویز رد ہوئی ترک تعلقات کی تائید کی گئی جینے کا کوئی ایک سہارا تو ...

    مزید پڑھیے

    اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے

    اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے دے رہے ہیں تمہیں تو لوگ رفاقت کا فریب ان کی تاریخ پڑھو گے تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3