Iqbal Ahmad Khan Arif

اقبال احمد خاں عارف

اقبال احمد خاں عارف کی غزل

    ہاتھ پھیلا نہ سکے بھیک کے پیالوں کی طرح

    ہاتھ پھیلا نہ سکے بھیک کے پیالوں کی طرح ہم سے مانگا نہ گیا مانگنے والوں کی طرح کر نہ گلشن میں اچھل کود غزالوں کی طرح چل بہت سوچ کے شطرنج کی چالوں کی طرح فاقہ مستوں پہ عنایات نوالوں کی طرح ہر نوالے میں مگر طنز بھی بالوں کی طرح ہم رہ زیست سے گزرے ہیں اجالوں کی طرح یاد رکھیں گے ...

    مزید پڑھیے

    عذاب جان کو بھی انبساط سمجھا میں

    عذاب جان کو بھی انبساط سمجھا میں خدا نے غم بھی دیے تو نشاط سمجھا میں چلا سنبھل کے کہیں جا گروں نہ دوزخ میں رہ حیات تجھے پل صراط سمجھا میں اٹھا جو زیست کا معیار گر گیا اخلاق غلط بھی کیا ہے اگر انحطاط سمجھا میں تھی تیری پہلو تہی کب بوجہ رسوائی وہ بے رخی تھی جسے احتیاط سمجھا ...

    مزید پڑھیے

    بگڑا جو وقت زینت بازار ہو گئے

    بگڑا جو وقت زینت بازار ہو گئے نیلام کیسے کیسے خریدار ہو گئے میں پھول تھا تو پیروں تلے روندتے تھے لوگ پتھر ہوا تو میرے پرستار ہو گئے دیواریں اٹھ رہی ہیں مرے گھر کے صحن میں لگتا ہے میرے بیٹے سمجھ دار ہو گئے شاید ترے جہاں میں شرافت گناہ ہے میں موم کیا ہوا سبھی تلوار ہو گئے انگلی ...

    مزید پڑھیے

    سب زر پرست تھے سر بازار بک گئے

    سب زر پرست تھے سر بازار بک گئے وہ قیمتیں بڑھیں کہ خریدار بک گئے اک دوسرے کی حرص نے اندھا بنا دیا زیبائش مکان میں گھر بار بک گئے بھڑکی بہ فیض مفلسی جب آتش شکم دو روٹیوں میں لوگوں کے پندار بک گئے اچھوں کو اس جہاں میں کوئی پوچھتا نہیں سب پارسا کھڑے ہیں گنہ گار بک گئے ہم مفلسوں کے ...

    مزید پڑھیے

    انسانیت کے نام کو رسوا نہ کیجئے

    انسانیت کے نام کو رسوا نہ کیجئے مت کیجئے برا بھی گر اچھا نہ کیجئے یہ معجزوں کا دور نہیں ہے مرے حضور قاتل سے زندگی کی تمنا نہ کیجئے پردے سے خوبیوں کے دکھیں گی برائیاں انسان کو قریب سے دیکھا نہ کیجئے مت ڈھالیے اصولوں کو سانچے میں وقت کے یوں مصلحت کی آنچ پہ پگھلا نہ ...

    مزید پڑھیے

    قد سب کے ان کی بزم میں کم کر دئے گئے

    قد سب کے ان کی بزم میں کم کر دئے گئے جو سر نہیں جھکے وہ قلم کر دئے گئے چہروں پہ حادثات رقم کر دئے گئے سب خوش مزاج وقف الم کر دئے گئے قہر خدا ہوا تو کوئی اف نہ کر سکا سارے وجود پل میں عدم کر دئے گئے جو ساتھ ساتھ چل نہ سکے وقت کے یہاں وہ لوگ صرف نقش قدم کر دئے گئے ہر بے ضمیر شخص نے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے حق میں کسی کے خلاف کہہ دوں گا

    کسی کے حق میں کسی کے خلاف کہہ دوں گا میں آئینہ ہوں جو دیکھوں گا صاف کہہ دوں گا مرا ضمیر کہاں زور و زر کی سنتا ہے مجھے تو جس سے ہوا اختلاف کہہ دوں گا ہر ایک عضو بدن کہہ رہا ہے روز جزا خدا سے تیرا ہر ایک انحراف کہہ دوں گا اٹھا کے صحن میں دیوار گھر نہیں بانٹا دلوں میں ڈال دیا ہے شگاف ...

    مزید پڑھیے