قد سب کے ان کی بزم میں کم کر دئے گئے

قد سب کے ان کی بزم میں کم کر دئے گئے
جو سر نہیں جھکے وہ قلم کر دئے گئے


چہروں پہ حادثات رقم کر دئے گئے
سب خوش مزاج وقف الم کر دئے گئے


قہر خدا ہوا تو کوئی اف نہ کر سکا
سارے وجود پل میں عدم کر دئے گئے


جو ساتھ ساتھ چل نہ سکے وقت کے یہاں
وہ لوگ صرف نقش قدم کر دئے گئے


ہر بے ضمیر شخص نے خوشیاں سمیٹ لیں
ہم راہ اہل ظرف کے غم کر دئے گئے


عارفؔ درون کعبہ کبھی بت بھی تھے مگر
معتوب سارے اہل حرم کر دیے گئے