سب زر پرست تھے سر بازار بک گئے

سب زر پرست تھے سر بازار بک گئے
وہ قیمتیں بڑھیں کہ خریدار بک گئے


اک دوسرے کی حرص نے اندھا بنا دیا
زیبائش مکان میں گھر بار بک گئے


بھڑکی بہ فیض مفلسی جب آتش شکم
دو روٹیوں میں لوگوں کے پندار بک گئے


اچھوں کو اس جہاں میں کوئی پوچھتا نہیں
سب پارسا کھڑے ہیں گنہ گار بک گئے


ہم مفلسوں کے پاس تو بکنے کا ہے جواز
عارفؔ بتاؤ کس لیے زردار بک گئے