ہاتھ پھیلا نہ سکے بھیک کے پیالوں کی طرح
ہاتھ پھیلا نہ سکے بھیک کے پیالوں کی طرح
ہم سے مانگا نہ گیا مانگنے والوں کی طرح
کر نہ گلشن میں اچھل کود غزالوں کی طرح
چل بہت سوچ کے شطرنج کی چالوں کی طرح
فاقہ مستوں پہ عنایات نوالوں کی طرح
ہر نوالے میں مگر طنز بھی بالوں کی طرح
ہم رہ زیست سے گزرے ہیں اجالوں کی طرح
یاد رکھیں گے ہمیں لوگ مثالوں کی طرح
کوئی اٹھتا ہی نہیں شہر میں قاتل کے خلاف
حق نواؤں کے بھی منہ بند تھے تالوں کی طرح
ہم میں تہذیب و تمدن بھی ادب بھی فن بھی
کل پڑھے جائیں گے ہم لوگ مقالوں کی طرح
تجھ سے جو کوئی ملا خوں میں نہا کر لوٹا
لہجہ برچھی ترا الفاظ ہیں بھالوں کی طرح
اہل ظرف آپے سے باہر نہیں ہوتے عارفؔ
ہم سمندر تھے نہ بپھرے ندی نالوں کی طرح