امتیاز خان کی غزل

    تو نہیں ہوگا مگر یہ سلسلا رہ جائے گا

    تو نہیں ہوگا مگر یہ سلسلا رہ جائے گا تیرے ہونے کا تصور جا بہ جا رہ جائے گا قربتوں کی راہ سے ہو کر گزر جائیں گے ہم منزلوں پر درمیاں بس فاصلہ رہ جائے گا کس نے سوچا تھا کہ یہ اتنا حسیں اک واقعہ ایک دن سینے میں بن کر حادثہ رہ جائے گا راہ دل کو روند کر آگے نکل جائیں گے لوگ آنکھ میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا

    وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا میری آنکھوں کا ہر اک منظر کہیں پر رہ گیا میں تو ہو کر آ گیا آزاد اس کی قید سے دل مگر اس جلد بازی میں وہیں پر رہ گیا کون سجدوں میں نہاں ہے جو مجھے دکھتا نہیں کس کے بوسہ کا نشاں میری جبیں پر رہ گیا ہم کو اکثر یہ خیال آتا ہے اس کو دیکھ کر یہ ستارہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے

    یوں ہی اکثر مجھے سمجھا بجھا کر لوٹ جاتی ہے کسی کی یاد میرے پاس آ کر لوٹ جاتی ہے میں بد قسمت وہ گلشن ہوں خزاں جس کا مقدر ہے بہار آتی ہے دروازے سے آ کر لوٹ جاتی ہے اسے اپنا بنانے میں بھی اک انجان سا ڈر ہے دعا ہونٹوں تلک آتی ہے آ کر لوٹ جاتی ہے میں اپنی قید کو ہی اپنی آزادی سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    پس گردوں کسی نے نام بولا تھا ہمارا

    پس گردوں کسی نے نام بولا تھا ہمارا بدن کی قید سے ہائے رہا ہونا ہمارا یوں خود کو چھوڑ کر نکلے کسی کی جستجو میں ہمیں نے عمر بھر پھر راستہ دیکھا ہمارا کسی کا عکس ہم پر رہ گیا یا آئنے پر کہ اپنے آپ سے چہرہ نہیں ملتا ہمارا بڑی مدت سے اس کی دھوپ جھیلے جا رہے ہیں پڑے گا شمس پر بھی ایک دن ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی

    ہمیں پر دھوپ برساتا ہے سورج بھی مقدر بھی درخت مہرباں کوئی کرے سایہ تو ہم پر بھی عیاں ہوتی چلی جاتی ہیں سب چہرے کی تحریریں ہوئی جاتی ہے نا کافی خموشی کی یہ چادر بھی بدن کی روشنی میں جو نہ دیکھا جا سکا ہم سے اسی شیشے کے پیکر میں دھڑکتا تھا وہ پتھر بھی حقیقت سے تصور تک سفر مجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    کاکل و چشم و لب و رخسار کی باتیں کرو

    کاکل و چشم و لب و رخسار کی باتیں کرو ظلمت دوراں میں حسن یار کی باتیں کرو کون کیوں لے کر چلا آتا ہے ان کا قافلہ آنسوؤں کے قافلۂ سالار کی باتیں کرو کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ سفر ہے ناگزیر کاروان وقت کی رفتار کی باتیں کرو خنجرو کچھ تو سر مقتل پہ ہوئے تبصرہ آریو کاٹے گئے اشجار کی ...

    مزید پڑھیے

    جو ان میں ہو رہا ہے وہ تماشا بھی نہیں دکھتا

    جو ان میں ہو رہا ہے وہ تماشا بھی نہیں دکھتا ہوا کیا ہے ان آنکھوں کو جو اتنا بھی نہیں دکھتا ترے پردہ نشیں ہونے میں تو حیرت ہی کیا لیکن تو جس پردے میں پنہاں ہے وہ پردہ بھی نہیں دکھتا یہ کیسے عالم تیرہ شبی میں آ گیا ہوں میں یہاں تو کوئی جگنو سے شناسا بھی نہیں دکھتا خدا کو دیکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا

    خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا نیند نگر غرقاب نہیں دیکھا جاتا جانے والے میری آنکھیں بھی لے جا ان کو یوں بیتاب نہیں دیکھا جاتا اتنا کہہ کر ایک شناور ڈوب گیا افسردہ گرداب نہیں دیکھا جاتا جانے اس کا چہرہ کیسے دیکھیں گے جس کا نور نقاب نہیں دیکھا جاتا ہم نے سارہ گلشن جلتے دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    ایک تصویر آنکھوں میں آتی ہوئی ایک جاتی ہوئی

    ایک تصویر آنکھوں میں آتی ہوئی ایک جاتی ہوئی پھر وہی شام ہے پھر وہی یاد ہے دل دکھاتی ہوئی شب کے دریا میں اٹھتی ہے اک موج ماضی بلا خیز کیوں لوٹ جاتی ہے کیوں ساحل حال سے سب مٹاتی ہوئی اور کیا ہونے والا ہے اب جو ابھی تک نہیں ہو سکا سن رہا ہوں کہیں دور سے پھر صدا کن کی آتی ہوئی وقت تو ...

    مزید پڑھیے

    ہجر میں آنکھیں آنسو بن کر بہہ جاتی ہیں سوچا نئیں

    ہجر میں آنکھیں آنسو بن کر بہہ جاتی ہیں سوچا نئیں وہ بھی اس دن غصے میں تھا اور میں نے بھی روکا نئیں کتنا مشکل ہے یہ کہنا میں تیرا ہو سکتا نئیں پھر بھی میں تجھ کو یہ دکھ تو دے سکتا ہوں دھوکہ نئیں ایک جگہ پر ٹھہری آنکھیں گہری سوچیں خاموشی کب تک خود پے ظلم کرو گے اس کو واپس آنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2