ہجر میں آنکھیں آنسو بن کر بہہ جاتی ہیں سوچا نئیں
ہجر میں آنکھیں آنسو بن کر بہہ جاتی ہیں سوچا نئیں
وہ بھی اس دن غصے میں تھا اور میں نے بھی روکا نئیں
کتنا مشکل ہے یہ کہنا میں تیرا ہو سکتا نئیں
پھر بھی میں تجھ کو یہ دکھ تو دے سکتا ہوں دھوکہ نئیں
ایک جگہ پر ٹھہری آنکھیں گہری سوچیں خاموشی
کب تک خود پے ظلم کرو گے اس کو واپس آنا نئیں
اس سے بچھڑ کر سوچ رہا ہوں اس کو بھلانے کی ترکیب
لوگ شراب پیا کرتے ہیں میں سگریٹ تک پیتا نئیں
شکوے مجھ کو بھی ہوتے ہیں میرا دل بھی دکھتا ہے
اپنے اندر گھٹ جاتا ہوں میری جان میں کہتا نئیں
کس درجہ نقصان اٹھایا ہے ہم عشق فقیروں نے
جتنا تجھ کو کھو بیٹھے ہیں اتنا تجھ کو پایا نئیں
یہ پریوں سے چہرے جن پر جان چھڑکتے ہیں ہم لوگ
مجھ کو ان پیڑوں کے نیچے دھوپ ملی ہے سایہ نئیں
کتنی امیدیں ہوتی ہیں ان کو اک ہاں سننے کی
لیکن اکثر پوچھنے والوں کے حصے میں آیا نئیں