امتیاز خان کی غزل

    تری فضول بندگی بنا نہ دے خدا مجھے

    تری فضول بندگی بنا نہ دے خدا مجھے میں کیا ہوں اور تو سمجھ رہا ہے جانے کیا مجھے نہ تو نظر میں ہے کہیں نہ دشت ہے نہ شہر ہے یہ کس خلا میں کھینچ لائے تیرے نقش پا مجھے تو اپنا کام کر گزر مجھے کوئی گلہ نہیں جو وقت نے بنا دیا ہوا تجھے دیا مجھے تجھے ہی سوچتے ہوئے پھر آج سو گیا ہوں میں گزر ...

    مزید پڑھیے

    تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا

    تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا کوئی ہمارے واسطے عیسیٰ نہ ہو سکا اتنی شدید دھوپ تھی مجھ پہ کہ عمر بھر ابر و درخت سے کبھی سایہ نہ ہو سکا نیندوں میں چھوڑ کر ہمیں آگے نکل گیا ہم سے اس ایک خواب کا پیچھا نہ ہو سکا گزرے پھر ایک بار تو دونوں کے درمیاں وہ واقعہ جو طور پہ پورا نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    نشے میں یہ کیا سمجھ لیا تھا

    نشے میں یہ کیا سمجھ لیا تھا خدا کو بندہ سمجھ لیا تھا ذرا سی چپ تھی اسی کو تم نے نہ جانے کیا کیا سمجھ لیا تھا حسیں تھا وہ اس قدر کہ ہم نے نظر کا دھوکا سمجھ لیا تھا میں ایسا پاگل دیا تھا جس نے ہوا کو اپنا سمجھ لیا تھا ہم اس کے دل تک پہنچتے کیسے بدن کو راستہ سمجھ لیا تھا اسے یوں ...

    مزید پڑھیے

    دل شکستہ کی نیم جاں خواہشوں کو جینا سکھا رہی ہے

    دل شکستہ کی نیم جاں خواہشوں کو جینا سکھا رہی ہے نگاہ افسوں بیان اس کی بتوں سے سجدہ کرا رہی ہے یہ پھول خوشبو یہ چاند تارے یہ گرتی بوندیں یہ ابر پارے سب اس کی آمد کے منتظر ہیں وہ خود کو سب سے چھپا رہی ہے یہ چاندنی میں نہایا دریا یہ محفل شب بھی خوب لیکن میں چاند پر جا رہا ہوں مجھ کو وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2