جو ان میں ہو رہا ہے وہ تماشا بھی نہیں دکھتا
جو ان میں ہو رہا ہے وہ تماشا بھی نہیں دکھتا
ہوا کیا ہے ان آنکھوں کو جو اتنا بھی نہیں دکھتا
ترے پردہ نشیں ہونے میں تو حیرت ہی کیا لیکن
تو جس پردے میں پنہاں ہے وہ پردہ بھی نہیں دکھتا
یہ کیسے عالم تیرہ شبی میں آ گیا ہوں میں
یہاں تو کوئی جگنو سے شناسا بھی نہیں دکھتا
خدا کو دیکھ کر مانوں یہ ضد بھی خوب ہے لیکن
ان آنکھوں کو ضرورت سے زیادہ بھی نہیں دکھتا