پس گردوں کسی نے نام بولا تھا ہمارا
پس گردوں کسی نے نام بولا تھا ہمارا
بدن کی قید سے ہائے رہا ہونا ہمارا
یوں خود کو چھوڑ کر نکلے کسی کی جستجو میں
ہمیں نے عمر بھر پھر راستہ دیکھا ہمارا
کسی کا عکس ہم پر رہ گیا یا آئنے پر
کہ اپنے آپ سے چہرہ نہیں ملتا ہمارا
بڑی مدت سے اس کی دھوپ جھیلے جا رہے ہیں
پڑے گا شمس پر بھی ایک دن سایہ ہمارا
تڑپتی ہے سسکتی ہے یہاں رہ کر مسلسل
یہ کس کی روح ہے جس نے بدن پہنا ہمارا
نشانے پر دل مجروح آخر کیوں ہمیشہ
ستم گر کیا تجھے یہ سر نہیں دکھتا ہمارا
بنا کے راز دل ہر حال میں وہ شخص ہم کو
رکھے گا یاد پر چرچا نہیں ہوگا ہمارا