تو نہیں ہوگا مگر یہ سلسلا رہ جائے گا

تو نہیں ہوگا مگر یہ سلسلا رہ جائے گا
تیرے ہونے کا تصور جا بہ جا رہ جائے گا


قربتوں کی راہ سے ہو کر گزر جائیں گے ہم
منزلوں پر درمیاں بس فاصلہ رہ جائے گا


کس نے سوچا تھا کہ یہ اتنا حسیں اک واقعہ
ایک دن سینے میں بن کر حادثہ رہ جائے گا


راہ دل کو روند کر آگے نکل جائیں گے لوگ
آنکھ میں اٹھتا غبار قافلہ رہ جائے گا


میں کہیں کھو جاؤں گا لے کر نگاہ شوق دید
تو چراغ حسن لے کر ڈھونڈھتا رہ جائے گا


کیا یوں ہی خاموش دنیا سے گزر جائیں گے ہم
کیا جو کہنا ہے وہ سب کچھ ان کہا رہ جائے گا


جب کہیں کچھ بھی نہیں تھا بس خدا تھا اور پھر
جب کہیں کچھ بھی نہ ہوگا بس خدا رہ جائے گا