Imdad Akash

امداد آکاش

امداد آکاش کی غزل

    قفس کو توڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا

    قفس کو توڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا وجود چھوڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا دھوئیں کے شہر میں بارش کا شکر واجب تھا سو ہاتھ جوڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا فضا کی دوسری جانب تھا باغ پھولوں کا مہار موڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا تھے اک غبارہ نما آسماں کی قید میں ہم غبارہ پھوڑ کے تازہ ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند

    نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند ہے آئنے میں قید مرا آئنا پسند دو چار دن بھی ہم سے نباہی نہیں گئی وہ معتدل مزاج تھا میں انتہا پسند وہ خود فریب شخص تھا پتھر شناس تھا آیا نہ اس کو کوئی بھی اپنے سوا پسند پوچھے ہے ہم نے کاہے کیا کفر اختیار غفلت پسند ہے نہ ہمیں آسرا پسند غوغائے مرگ ...

    مزید پڑھیے

    یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے

    یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے بدن کھو بیٹھنے کے ڈر سے کم باہر نکلتا ہے کوئی سودا مرے سر میں سماتا ہی نہیں لیکن سما جائے تو پھر وہ سر سے کم باہر نکلتا ہے جہاں سورج برس میں ایک یا دو دن چمکتا ہو وہاں سایہ کسی پیکر سے کم باہر نکلتا ہے زمینیں ڈوب جانا چاہتی ہیں پیاس ایسی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں جنگل اگاتے ہیں کہیں آہو بناتے ہیں

    کہیں جنگل اگاتے ہیں کہیں آہو بناتے ہیں مصور ہیں ترے پہلو کو صد پہلو بناتے ہیں بھلا کیا قتل پر اپنے رقیبوں سے گلہ کہ وہ مرا نافہ جدا کر کے تری خوشبو بناتے ہیں تحمل سیکھ ہم سے گفتگو کر نرم لہجے میں کہ سب تیرے رویے ہی کو اپنی خو بناتے ہیں کہیں کوئی ستارہ چھوڑتے ہیں بے کرانی ...

    مزید پڑھیے

    نفی کے جبر سے آزاد اور ثبات سے دور

    نفی کے جبر سے آزاد اور ثبات سے دور ہے کائنات کوئی میری کائنات سے دور مرا وجود مری داستاں کا حصہ ہے مرا نشاں ہے کہیں پر حصار ذات سے دور پتا چلا ہے کہ چشمہ ہے آب حیواں کا زمیں کی حد سے پرے عرصۂ حیات سے دور نگار خانے کے اندر نگار خانے ہیں کئی خیال ہیں میرے تخیلات سے دور یہ سبز رنگ ...

    مزید پڑھیے

    ترے بنائے کو بار دگر بناتے ہوئے

    ترے بنائے کو بار دگر بناتے ہوئے میں تھک گیا ہوں دریچوں کو در بناتے ہوئے تجھے خبر نہیں گزرے کس امتحان سے ہم تری شبیہ تجھے دیکھ کر بناتے ہوئے پس حیات دکھاتے ہو اک نئی دنیا لگے گی دیر ادھر کو ادھر بناتے ہوئے کبھی زمین پہ کتنی زمین ہوتی تھی وہ سوچتا ہے سمندر میں گھر بناتے ہوئے اے ...

    مزید پڑھیے

    مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی

    مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی شجر ہوا میں اگائے گئے زمیں کم تھی میں اس جگہ ہوں جہاں سے پلٹ کے سورج میں پناہ ڈھونڈنے سائے گئے زمیں کم تھی بشر مقیم تھے قبروں میں اور نئے مردے سمندروں میں بہائے گئے زمیں کم تھی ہمیں بھی لوٹ ہی جانا ہے ہم سے پہلے بھی سب آسماں پہ اٹھائے گئے زمیں کم ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا

    لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا جیسے کسی نے ہاتھ ملایا نکل گیا کانٹا سا اک چبھا تھا مرے دل میں خوف مرگ میں نے ذرا سا زور لگایا نکل گیا شیطان میری ذات کے اندر مقیم تھا لوبان کوٹھری میں جلایا نکل گیا جب رات خوب ڈھل گئی سویا مرا وجود کون و مکاں کی سیر کو سایا نکل گیا مجھ میں مقیم ...

    مزید پڑھیے

    مجھے جب موت نے بویا زمیں میں

    مجھے جب موت نے بویا زمیں میں میں پھر اگنے کو جا سویا زمیں میں خرام اس حسن والے کا ہے ایسا گڑے ہیں آدمی گویا زمیں میں مرا نام و نشان نکلا زمیں سے مرا نام و نشاں کھویا زمیں میں گزر اوقات کرنا ہے یہیں پر زمیں پر وقت کاٹو یا زمیں میں

    مزید پڑھیے

    عہد جنوں میں عرصۂ وحشت گزارنا

    عہد جنوں میں عرصۂ وحشت گزارنا جیسے شب وصال میں فرقت گزارنا جانا سراغ جوہر تخلیق ڈھونڈنے اور اس کے بعد عالم حیرت گزارنا کرنا حیات پہلوئے ایوان درد میں روزانہ ایک روز قیامت گزارنا اب تک تو ہے عروس بدن کے نصیب میں زلفوں پہ خاک ڈالنا عدت گزارنا جیون سزائے موت سے پہلے کا کھیل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2